آہ! امداد جان – شاھو گریشگی

401

آہ! امداد جان

تحریر: شاھو گریشگی

دی بلوچستان پوسٹ

جب شاشان کے اس پیاسے پہاڑ پہ نظر پڑتی ہے تو ایک معصوم اور ہنستا ہوا چہرہ نظر آتا ہے۔ وہ ہنستا اور مسکراتا ہوا معصوم چہرہ صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ دنیا کے ہر انقلابی کے لئے بہادری اور ہمت کی علامت ہے۔ وہ معصوم اور ہنستا مسکراتا چہرہ امداد جان کب ہے جسے ریاستی اداروں نے جسمانی طور پر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کردیا۔

امداد جان گریشہ اسپکنری میں جمعہ خان کے ہاں پیدا ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں اسپکنری سے حاصل کی جبکہ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئےجائی سکول سریج گریشہ میں داخلہ لیا۔ لیکن سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے انکے والد نے انہیں مزید تعلیم کے لئے کراچی بھیج دیا۔

بلوچستان کے حالات سے ہربا شعور فرد واقفیت رکھتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان کو نوگو ایریا میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اسکے اثرات بلوچستان کے ہر علاقے میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ماورائے عدالت گرفتاری ،لاشوں کی برآمدگی، تعلیمی اداروں کی چھاؤنیوں میں تبدیل ہونے کا عمل بلوچستان کے ہر علاقے میں شروع کئے گئے۔ خضدار کا علاقہ گریشہ بھی انہی صورتحال سے دوچار تھا۔ فوجی چھاؤنیاں، ماورائے عدالت گرفتاری کا عمل یہاں بھی شروع کیا گیا۔

بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پھیلنے والی آزادی کی جنگ نے گریشہ کو قدرے متاثر کیا۔ نوجوانوں کی شمولیت نے تحریک کو گریشہ میں بھی توانائی فراہم کی۔ تحریک کی مضبوطی نے ریاست کو مجبور کیا کہ وہ گریشہ میں فوجی آپریشن کا آغاز کریں۔

کچھ رونماء ہونے والے واقعات انسان پہ گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، اسی طرح گریشہ میں ایک فوجی آپریشن میں شہید کمال بلوچ کی شہادت نے نوجوانوں کو مجبور کیا کہ وہ تحریک میں شامل ہوجائیں۔

شہید کمال بلوچ کی شہادت کے بعد گریشہ میں ایک نئے تبدیلی کا آغاز ہوا۔ نوجوانوں کی گرفتاری اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی روز کا معمول بن گیا۔ اس دن سے لیکر آج تک بہت سے ماؤں نے اپنے نوجوان بچوں کو اس ظالم ریاست کے ہاتھوں شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

خونی آپریشن کے آغاز کی وجہ سے عوام کی کثیر تعداد نے محسوس کیا کہ وہ اپنے ہی سرزمین پہ محفوظ نہیں ہیں۔ ہر ایک نے ہجرت کو ترجیح دی اور گریشہ سے کئی خاندان ہجرت کرکے کراچی اور حب کے علاوہ دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے، ان بدقسمت خاندانوں میں شہید امداد جان کا خاندان بھی شامل تھا، جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر مہاجر کی زندگی گذارنے پہ مجبور ہوگئے۔ ریاستی ظلم و جبر سے نقل مکانی کرنے والے بھی محفوظ نہ رہ سکے۔

ایک دن کچھ ضروری کام کی وجہ سے امداد جان کو گریشہ جانا پڑا لیکن وہ واپس نہیں آسکے اور ہمیشہ کے لئے گریشہ کی سرزمین میں دفن کردیئے گئے۔ ریاست نے امداد جان کو شہید کرکے ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کردیا۔ انقلاب بچوں کو کھا جاتی ہے کہ مصداق اس دھرتی کو امداد کے خون کی ضرورت تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔