عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں پھیلنے والی کورونا وائرس کے پھیلاﺅ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گلوبل ایمرجنسی کے نفاذکا اعلان کردیا ہے ۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایدھانوم گیبریسس نے یہ اعلان مذکورہ وائرس کے 18 ممالک تک پھیل جانے پر عالمی ادارہ صحت کی ہنگامی کمیٹی اجلاس کے بعد کیا جو آزاد ماہرین کے پینل پر مشتمل ہے۔
جنیوا میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں جس طرح وائرس پھیلا ہے اس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی جس پر ردِ عمل بھی مثالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کردوں کہ اس اعلان کا مقصد چین پر عدم اعتماد ظاہر کرنا نہیں ہے اور چین کی جانب اور چین سے سفر کرنے پر پابندی عائد کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں‘ہمیں سب سے زیادہ تشویش ممکنہ طور پر وائرس کے ایسے ممالک میں پھیلنے کے حوالے سے ہے جن کا نظام صحت کمزور ہے. عالمی ادارہ صحت کی کمیٹی کی سربراہی فرانس کے ڈیڈیر حسین کے پاس ہے جبکہ اس میں 16 آزاد ماہرین بھی شامل ہیں گزشتہ ہفتے 2 مرتبہ ماہرین نے ہنگامی صورتحال کا اعلان نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ انہوں نے چین سے مزید معلومات اور دیگر ممالک میں وائرس کے انسان سے انسان میں منتقل ہونے کے مصدقہ شواہد مانگے تھے تا کہ عالمی ہنگامی صورتحال قرار دینے کا معیار جانچنا جاسکے۔
مذکورہ وائرس کے پھیلاﺅ کو ہنگامی صورتحال قرار دینے کے ساتھ تمام ممالک کو سرحد پار اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے اور کم کرنے کی تجاویز دے دی گئی ہیں جبکہ تجارتی اور سفری معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کیا گیا ہے اس میں دنیا بھر کے صحت حکام کے لیے عارضی تجاویز شامل ہیں جس میں نگرانی، تیاری اور روک تھام کے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کا کہا گیا۔
خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت ایسا قانونی ادارہ نہیں کو ممالک پر پابندیاں عائد کرسکے تاہم یہ کسی ہنگامی صورتحال میں ممالک کی جانب سے عائد کی جانے والی سفری اور تجارتی پابندیوں کے حوالے سے سائنسی جواز فراہم کرنے کا کہہ سکتا ہے. کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز(وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے ، عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے. جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے. کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا ڈرگ دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا تاہم چین میں پھیلنے والا وائرس نوول کورونا وائرس ہے جو متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں.عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی حکام نے اب تک کرونا وائرس سے213افراد کے ہلاک اور10ہزار سے زائد کے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک دنیا کے18ممالک میں کرونا وائر س کے98مریض سامنے آچکے ہیں تاہم ابھی تک چین سے باہر کرونا وائرس سے موت کا کوئی واقع رپورٹ نہیں ہوا۔