ڈاکٹر منان جان اور پروم جلسہ
تحریر: سوبین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس سے پہلے کہ میں ڈاکٹر منان کے بارے میں کچھ لکھنے کی جسارت کروں، میری بے جان قلم میں اتنی ہمت اور طاقت نہیں ہے کہ میں اتنے عظیم قومی رہنما کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ میں شاید پہلی دفعہ ایک ایسی ہستی کے بارے مین لکھ رہا ہوں جو صفحہ اول کے سیاسی کرداروں میں شمار ہوتا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سنگت بول رہے تھے کہ ڈاکٹر منان جان پروم کا دورہ کرنے اور جلسہ کرنے آرہے ہیں، مجھے تھوڑا عجیب لگا کہ یہاں تو بی این ایم کیلئے ایسے حالات میں جلسہ کرنا بالکل ساز گار نہیں ہے کہ ڈاکٹر جان پروم آئیں اور مجمع سے سرعام خطاب کرسکیں، وہ اسلیئے کہ پاکستانی فوج بلو چ سیاسی ورکروں، سیاسی لیڈروں، ہمارے بزرگوں، ماوں، بہنوں کو بے دردی سے اٹھا کر روڈوں، گلیوں، بازاروں، چوراہوں پر انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکتے جارہے تھے اور بہت ساروں کو زندانوں میں تاحیات ڈال کر غائب کر رہے تھے۔
ہمارے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر منان جان کے شانہ بشانہ بی این ایم کا پروگرام ہر گھر تک پہنچا ئیں گے، وہ دن بھی آگیا جب ڈاکٹر جان پروم پہنچے اور بی این ایم کا ایک ہنگامی میٹنگ بلایا، جلسے کے لیے آئندہ کا لاحہ عمل تیار کیا، سب دوستوں کو اتنی ترتیب سے کام کےلیے آمدہ کیا کہ ہر ایک اپنے کام میں دل سے جھٹ گیا اور خُود میتگ میتگ بازاروں میں دورے کےلیے نکل پڑا، ایک مہینے تک ہر گروپ نے اپنا کام ایمانداری سے نبھایا، جلسے کی تیاریاں عروج پر تھیں، کچھ نادان لوگ جو نئے نئے سیاست کی الف ب سیکھ رہے تھے، بلوچ سیاسی سنگتوں کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، جب ڈاکٹر انکے دیوان میں گیا تو اُن کے سارے جواب انکو مل گئے اور وہ چپ سادھے خاموش ہو گئے۔
ہر عام و خاص بندے نے پہلی دفعہ ڈاکٹر کو دیکھا، انکی بے پناہ خلوص و پیار کی وجہ سے انکا مداح ہوگیا، سرکاری کاسگ چٹوں نے خوب پروپکنڈہ کیا کہ اگر لوگ جلسے میں جائینگے تو جہاز آئینگے، بمبارمنٹ ہوگی، تباہی ہوگی، مگر دشمن کی ہر چال دوستوں نے ملکر ناکام بنایا، جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگ مرد و زن بڑی تعداد میں آئے، ڈاکٹر جان کی تقریر کو بہت تحمل اور صبر سے سنا، پروم کی تاریخ میں اتنے لوگ جلسے کے لیے کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوئے تھے۔ وہ بھی خواتین اور بچے، بوڑھے، جوان سب نے ملکر جلسے کو کامیاب بنایا اور ڈاکٹر منان جان کا علم اور فلسفے کو آگے بڑھایا۔
پروم نہیں بلوچستان کے کونے کونے کا ڈاکٹر منان جان دورہ کرتے اور جلسہ آٹینڈ کیا کرتے تھے، انکو بخوبی اندازہ تھا کہ لگور دژمن میرے پیچھے پڑا ہے لیکن ڈاکٹر ایک عظیم رہنما تھے، وہ بلوچ اور بلوچ قومی سیاست پر یقین رکھتے تھے، وہ اپنی ذات سے زیادہ بلوچ اجتماعیت کو زیادہ مقدم سمجھتے تھے، مستونگ کی برف پوش پہاڑی وادیوں مین جنوری کے موسم میں ڈاکٹر جان بی این اہم کے سیاسی دورے پر تھے جب بزدل دشمن نے 2016 کو انکو ساتھیوں سمیت بے دردی سے شہید کیا، بے شک اسنے ہمارا رہبر ہم سے چھینا مگر ڈاکٹر کا سوچ اور نظریہ رہتی دنیا تک ہر انقلابی کے دل میں زندہ اور جاویداں رہے گا۔
بے شک تو بکش زلم بکن آس بجن
مہ دار ءِ سرا ہک گشاں چپ نباں چپ نباں
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔