ٹوپی ڈرامہ – عتیق بلوچ

982

ٹوپی ڈرامہ

تحریر: عتیق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں ٹوپی ڈرامہ پارٹی اگر اختر مینگل کی بی این پی کو کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، بی این پی اور اختر مینگل ٹوپی ڈرامہ میں بہت ایکسپرٹ ہیں، ان کو بلوچ قوم کے احساسات سے کھیلنا بہت خوب آتا ہے اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا اختر مینگل ایک وقت میں اپوزیشن کا کرداد بھی ادا کرتا ہے اور حکومت کا مزہ بھی لے رہا ہے، لاپتہ افراد کے لئے چند آنسو بہا کر ان آنسوؤں کا معاوضہ دونوں طرف سے بہت خوب وصول کرتا ہے، لاپتہ افراد اور بلوچستان کے دیگر مسائل کو بطور کارڈ استعمال کرکے بلوچ قوم سے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ کر 6 نکات کا ڈرامہ کرکے حکومت اور ایجنسیوں سے سودا بازی کرکے ذاتی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔ جب مراعات کا دروازہ بند ہو تو اس دروازے کو کھولنے کے لئے 6 نکات خصوصا لاپتہ افراد کو بطور چابی استعمال کرکے حکومت کو بلیک میل کیا جاتا ہے، اسمبلی میں جذباتی تقریر کرکے سادہ لوح بلوچوں سے بھی خوب داد تحسین وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے بی این پی کی موجودہ پالیسی نیشنل پارٹی، باپ اور بی این پی عوامی کے بلوچ کش پالیسیوں سے خطرناک ہے کیونکہ یہ پارٹیاں کھل کر اپنے موقف کا اظہار کررہے ہیں لیکن بی این پی اور اختر مینگل کا پالیسی آج تک واضح نہیں ہے، پی ٹی آئی کو مرکز میں ووٹ دے کر کہا گیا ہم نے بلوچستان اور بلوچ قوم کی وسیع تر مفاد میں حکومت سے معاہدہ کیا ہے اور پرانے پٹارے سے 6 نکات نکال کر حکومت کے ہاتھ میں تھما دیا گیا لیکن 6 نکات بی این پی کے لیڈروں کے لئے سونے کی چڑیا ثابت ہوگئی ہے۔

بجٹ کے موقع پر تو 6 نکات 15 ارب میں فروخت ہوکر ریکارڈ فائدہ حاصل کرلیا، صدارتی الیکشن ہو، چیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد ہو، اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو یا آرمی چیف ایکسٹنشن ایکٹ بل ہو اختر مینگل کی حصے میں مراعات ہی مراعات آئی ہے، لیکن اپنی فیس سیونگ کے لئے ہمیشہ ٹوپی ڈرامہ کرکے اپنے آپ کو معصوم اور مظلوم ثابت کرتا رہا ہے، لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی کو سیاسی ڈھال بناتے رہے، اب آرمی ایکٹ کی حمایت دراصل بلوچ قوم کے قاتلوں کے حمایت کے مترادف عمل، انہی فوجیوں کے ہاتھ بلوچوں کی خون سے رنگین ہیں، جبری گمشدگیوں اور گوادر میں بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے میں پاکستان کی فوجی حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ اپنے اس عظیم غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اب ایک نام نہاد بل گوادر کے حوالے سے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا گوادر کے حوالے سے ایک نقطہ 6 نکات میں شامل ہے لیکن اب الگ سے بل پیش کرکے اسمبلی میں ایک جذباتی تقریر کرکے اندھے تقلید کرنے والے ورکروں سے شکریہ اختر مینگل کا ورد کروایا جائے گا یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ سالوں سے جاری ہے۔

شکریہ اختر مینگل کے علاوہ بی این پی نے تادم تحریر کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے، بلوچستان میں جبر کا سلسلہ تاحال جاری ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے، کچھ لاپتہ افراد بازیاب ہوئے لیکن بازیاب ہونے والوں سے زیادہ لاپتہ ہوئے نیشنل پارٹی اور باپ کو ریاستی پارٹیاں قرار دینے والے ایک قدم آگے بڑھ کر ریاستی اداروں کے گڈ بکس میں اپنا نام درج کروانے کے لئے فوج کی بی ٹیم بننے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں، اختر مینگل اسلام آباد پہنچ کر سردار عطاء اللہ مینگل کے نظریات اور آدرش کو دفن کردیا۔

سردار عطاء اللہ مینگل زندگی بھر اصولی سیاست کے قائل رہے اور اپنے اصولوں پر آج تک ڈٹے ہوئے ہیں لیکن سپوت ان کے اصولوں کو پاوں تلے روند رہا ہے، اصولوں کے بجائےذاتی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے، جب بھی سودا بازی کیا جاتا ہے کہا جاتا ہے بلوچ قوم کے مفاد میں یہ سودا کیا ہے، بلوچ قوم نے تمھیں اسلام آباد سودابازی کے لئے نہیں بلکہ بلوچستان کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے بھیجا تھا لیکن بلوچ قوم کے مفادات کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے ٹوپی ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ اب یہ ٹوپی ڈراموں کا سلسلہ بند کرکے بلوچ قوم کے خواہشات، لاپتہ افراد کے لواحقین کی توقعات، احساسات اور مجبوریوں سے کھیلنے کا سلسلہ بند کرکے انکی آنسوؤں پر سودا بازی اور زخموں پر نمک پاشی کا سلسلہ ترک کیا جائے۔

بی این پی کے قائدین چند ذاتی مفادات کے لئے مجموعی قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلوچ قومی مفادات کو گزند پہنچا کر گروہی مفادات حاصل کررہے ہیں، انکے اس عمل سے بلوچ قومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بی این پی سمیت دیگر پارلیمانی پارٹیاں بلوچ شہداء کے قربانیوں اور بلوچ تحریک کو کیش کرکے اسلام آباد اور اسٹبلشمنٹ سے بھر پور مفادات حاصل کررہے ہیں اس سے قبل یہ عمل نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی دہرا چکے ہیں، اب اس ریس میں بی این پی شامل ہوچکی ہے۔ وہ اس ریس میں دوڑنے سے پہلے نیشنل پارٹی کی موجودہ حالت کا ضرور جائزہ لیں، جس طرح بلوچ قوم نے حال میں نیشنل پارٹی کو انکی ماضی کے غلطیوں پر مکمل مسترد کیا، اسی طرح مستقبل میں بی این پی کو بھی مسترد کرینگے۔

جذباتی تقریروں، بڑھک بازیوں سے مزید بلوچ قوم کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا، آرمی ایکٹ کو بی این پی نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور گوادر کے حوالے سے قانون سازی کے لئے نہیں بلکہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے سپورٹ کی تھی، اب اپنے غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے گوادر اور لاپتہ افراد کی کیس کو استعمال کیا جارہا ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی ضروری ہے لیکن لاپتہ افراد کی بازیابی کو ڈھال بناکر قومی مفادات اور اصولوں پر سودا بازی قابل قبول نہیں۔ بلوچ قوم کے جذبات سے کھیل کر لاپتہ افراد کے نام پر emotional blackmail کیا جارہا ہے اور اپنے ہر کالے کرتوت اور سودا بازی کو یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کیا جاتا ہے کہ ہمارے 4 ووٹوں کے بدلے اگر ماوں اور بہنوں کی آنسو خشک ہوئے یہ ہماری کامیابی ہے اور تمہارے 4 ووٹوں کے بعد ہزاروں بلوچ لاپتہ ہوئے ہیں اور ماں و بہنیں خون کے آنسو رو رہی ہیں، انکی ذمہ داری کیوں اپنے سر نہیں لیتے اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت سے اتحاد کے بعد ہونے والے جبری گمشدگیوں، قتل عام، لوٹ مار اور ناانصافیوں کا بھی ذمہ داری قبول کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔