تیس جنوری: ہم نے کیا کھویا؟ – دل مراد بلوچ

336

تیس جنوری: ہم نے کیا کھویا؟

تحریر: دل مراد بلوچ
انفارمیشن سیکریٹریبلوچ نیشنل موومنٹ

دی بلوچستان پوسٹ

تیس جنوری 2016 کی ایک سرد رات، پارٹی دوستوں کے ساتھ ایک کٹیا میں آگ کے الاؤ پر خود کو گرم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بی بی سی اردو پروگروام کے انتظار میں تھے کہ کوئی خیر کی خبر، کسی کی رہائی کی خبر بلیٹن میں شامل ہو۔ لیکن بی بی سی سے شاذہی خیر کی خبر ہماری سماعت کے حصے میں آئی۔ سویہ بھی معمول کا انتظار تھا۔ آٹھ بج گئے۔ ایک چھوٹی سی ریکارڈر ہمیشہ ہاتھ میں ہوتا کہ شاید کوئی قابل ریکارڈ خبر ہو۔ آٹھ بج گئے اور خبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلسل سننے سے بی بی سی جیسے مہان ادارے کی یکسانیت بھی انتہائی ناگوار گزرتی ہے لیکن دوسرا چارہ کار نہ تھا۔ سننا نصاب کا لازمی حصہ بن چکا تھا۔ جب تک بی بی سی ریڈیو سروس مرحومین میں شامل نہ تھا، بلوچ سیاسی سرکلوں میں آٹھ بجے سے نو بجے تک مجلس میں ایک ہی آواز کو چلنے کی اجازت تھی اور وہ بی بی سی اردوسروس تھا۔ ساتھی اس طرح منجمد ہوکر سنتے جیسے کہ شاگرد زانو تلمذ ہوکر اپنے گرو کا درس سنتے ہیں۔ عمومی دنوں کی طرح خبروں کی سرخی اور متن میں بلوچستان کا ذکر شامل نہیں تھا۔ لیکن آخر تک سننا لازمی تھا۔ ہم اکتائے اکتائے سن رہے تھے کہ آخری چند منٹوں میں اعلان ہوا کہ پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مستونگ میں ڈاکٹر منان بلوچ کوقتل کردیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جیسے ہم پر بجلی گری۔ اس سے قبل کہ کاظم مینگل کی خبرچلتی، ذہن نے ہزار نقشے بُنے۔ خبر کے رَد ہونے کی ہزار تاویلیں بنانے میں جت گیا۔

انسانی ذہن بھی عجیب شئے ہوتا ہے کہ کبھی کبھارکوشش کے باوجود ذہن کوئی خیالی عکس بنانے سے قاصر رہتا ہے۔ اور کبھی ایک مختصر لمحے ہی میں ہزاروں قصے بُنتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی لمحہ تھا کہ ذہن میں متنوع خیالوں کاطوفان برپاتھا۔ نہیں۔ یہ ڈاکٹر منان جان نہیں ہوں گے۔ یہ پاکستان کا ایک اور جھوٹ ہوگا جو پاکستان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ پاکستان ایک دو دفعہ پہلے ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کو مارنے کے جھوٹے دعویٰ سمیت ایسے متعدد کارنامے انجام دے چکا تھا۔ سوچا یہ بھی جھوٹ ہی ہوگا۔ ایسے ہی خیالات سے ہماری ڈھارس بندھ رہا تھا کہ کاظم کی رپورٹ شروع ہوئی۔ اس میں بدنام زمانہ وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا آواز بھی شامل تھا، جو بڑے فخر سے دعویٰ کررہے تھے کہ انہوں نے ”بی ایل ایف“ کے کمانڈرڈاکٹر منان کو ماردیا ہے۔ انہوں نے یہ ہزرہ سرائی بھی کیا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کو مارنے کے بعد بی ایل ایف کے معاملات کو ڈاکٹر منان چلارہے تھے۔ یہ فورسز کی بڑی کامیابی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بی بی سی معتبر ادارہ ہے، اس کی خبروں کی صداقت پر شک کم ہی ہوتا ہے لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ رپورٹ ختم ہوئی تو صدیق بلوچ سے ڈاکٹر منان کے بارے چند سوال کئے گئے انہوں یہ زحمت گوارا نہیں کہ ڈاکٹر صاحب بی ایل ایف کے نہیں بی این ایم کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ البتہ یہ اقرار کی کہ پڑھے لکھے رہنما تھے۔ میں، چیئرمین صاحب اور چند ساتھی گویا سُن ہوچکے تھے۔ بی بی سی کا گھنٹہ ختم ہوا۔ ہم بُت بنے بیٹھے رہے۔ کسی نے ہمت کرکے ریڈیو بند کردی۔ آگ بھی بجھ گیا تھا۔ میں تفصیلی احوال لینے کے لئے چلاگیا، شاید وہ بھی اس امید سے کہ میں خبر کی تردید لاؤں۔

زمستان کی یخ بستہ گوریچ زوروں پر تھا لیکن آج میں سردی گرمی جیسے فطری احساسات سے عاری ہوچکا تھا۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔ پارٹی میڈیئٹر کا نمبر ملایا جو بدقسمتی سے مل گیا اور میں بس ایک ہی لفظ بول پایا ”ھال“۔ جواب میں انہوں نے ایک ہی لفظ کہا،”راستے“۔ پھر ہمت کرکے تفصیل جاننی چاہی۔ دوسرے شہید دوستوں کے نام پوچھ کرتفصیل لے کر واپس پہنچ گیا تو ساتھی بجھ چکے آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ میری خاموشی نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ رات ڈھل چکی تھی اور میں اجازت لئے بغیر اٹھ کر اپنے کٹیا جاپہنچا، بستر پر دراز ہوا۔ یہ بات ہی بے معنی ہے کہ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ احمق دل ابھی تک نہیں مان رہا تھا کہ یہ ہوچکا ہے۔

بلوچ قومی تحریک کے سیاسی سفر میں تیس جنوری کا دن ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ سرزمین بلوچ پر طلوع ہوا،ایک ایسی نقصان جسے شائد لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتاہے، کہتے ہیں کہ تیس جنور ی کو ہم نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھی کھودیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے تحریک آزادی کی ایک ایسی ہستی کھودیا جس کانعم البدل پیدا کرنے کے لئے صدیاں درکارہوتی ہیں۔ اس دن ہم نے مستونگ میں سنگت ثنا کے پہلو میں ایک ڈاکٹر منان کو نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے باعمل انسان، توانا و پُر تاثیر آواز، تحریکی مستقبل کے بین الاقوامی مبلغ کو منوں مٹی تلے دفن کردیا۔ ایک ایسی آواز جو صدا بہار تھا۔ ایک ایسی آواز جس میں کبھی تھکن نہیں آئی۔ ایک آواز جس میں تاثیر تھا۔ ایک ایسی آواز جو کانوں تک پہنچتے ہی دل میں اترجاتا اور روح کو سرشارکرجاتا۔ وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کردی گئی۔ دشمن نے یونہی تو منان جان کے قتل پر شادیانے نہیں بجائے۔

فارسی میں کہتے ہیں ”جائے استاد خالی است“بلوچ جدوجہد میں آج جائے استاد خالی ہے، نجانے کب اور کس موڑ پر یہ جگہ پر ہو،کون بصور ت ڈاکٹر منان اس نشست پر جلوہ افروز ہو،شہدائے مستونگ کوئی معمولی نقصان تو نہیں تھا کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اوہ خدایا ہم نے کیا کھودیا؟ ڈاکٹر منان جان کے علاوہ بابو نوروز، اشرف جان، حنیف جان، ساجد جان سبھی اپنے اپنے فیلڈ میں لائق و قابل دوست تھے۔ ان سب نے ایک ہی وقت میں ہونا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہونی کو کوئی دیو بھی انہونی میں نہیں بدل سکتا۔ یہ ہوچکا تھا۔ یہ تلخ گھونٹ پینا ہی تھا۔ پارٹی نے انہیں بلوچ سیاست کا مینارہ نور قراردیا۔ پارٹی نے انہیں مشعل راہ قرار دیا۔ پارٹی نے سوگند کی تجدید کی کہ یہ سفر نہیں رکنے والالیکن یہ زخم کبھی نہیں بھرے گا،یہ خلاشائد صدیوں بعد پر ہو۔

ڈاکٹرمنان بلوچ محض ایک شخص کا نام نہیں تھا۔ بلکہ ڈاکٹر منان ایک انقلابی رویے اورحرکت کا نام تھا۔ ایسا رویہ جس میں اپنائیت تھی۔ کشش تھا، خوشبوتھا، مہک تھا۔ ڈاکٹر منان جان کے پاس پہنچ کر من و تو، زمان و مکان مٹ کر بس قالب ہی الگ رہ جاتے۔ سب ایک ہی روح میں سما جاتے اورمحفل گویا محفل ِسماع بن جاتا۔ ڈاکٹر منان وہ لڑی تھا جس میں پارٹی کارکن اوردوزواہ بڑے خوبصورتی سے پروئے ہوئے تھے۔ وہ تھے ہی ایسے۔ سرزمین کے عاشق۔۔۔ بلوچستان کے عاشق تھے۔ کتاب کے عاشق۔ علم کے عاشق تھے۔ بی این ایم کے فدائی تھے اور فدا ہو کر ثابت بھی کرگئے۔ بلوچستان کو ہمیشہ علمی میدان میں قحط کا سامنا رہا ہے لیکن تحریک میں علمی دوستوں کا قحط تو نہیں البتہ کمی ضرور تھا۔ ڈاکٹر منان اس قحط زدہ وادی کے گلستان تھے۔

غلامی میں موت کی سی سکوت ہوتی ہے۔ ذہن منجمد اور تقلید محض بن کر رہ جاتے ہیں۔ غلامی کے اس گہری سکوت میں ڈاکٹر منان بلوچ حرکت کا دوسرا نام تھا۔ وہ سکوت اور ایک جگہ ٹہر کر رہنے کو سیاسی انسان کا موت سمجھتے تھے۔ سیکوریٹی خدشات حد سے بڑھ گئے تھے۔ دوستوں نے مشوردہ دیا کہ سفر کم اوراحتیاط زیادہ کریں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ”خوف اور احتیاط میں فرق ہوناچاہئے۔ اگر ہم احتیاط کے نام پر خوف زدہ ہوکر بیٹھ گئے تو یہ ہماری قومی موت ہوگا“اور”ہماری انفرادی موت میں قومی زندگی پنہاں ہے“۔ ہمیشہ سفر میں تھے۔ مکران، جھالاوان، خاران، سراوان اورکراچی غرض بلوچستان کے چپے چپے چھان لیتے۔ وہ جہاں گئے، اپنا نشان چھوڑ گئے۔ جہاں گئے، بی این ایم کی داغ بیل ڈال گئے، سیاست کی نہال لگا گئے۔ دلوں میں آزادی کی تمنا مثل مشعل روشن کرگئے۔ وہ آزادی کا ایک ایسا شمع دان تھے جس میں آزادی کا لَو ہمیشہ روشن رہتا تھا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹر منان بلوچ جہاں بھی گئے آج وہاں سیاسی آثار توانا صورت میں موجود ہیں اورہمیشہ موجودرہیں گے۔

دشمن کی بے پناہ بربریت کے باوجود آج بلوچستان اوردیگر ممالک میں پارٹی موجود ہے۔ پارٹی ورکر بساط بھر کام کر رہے ہیں۔ اس میں ڈاکٹر منان بلوچ کی سیاسی محنت اور سرزمین سے عملی عشق کا بڑا عمل دخل حاصل ہے۔ ان شبانہ روز محنت نے سینکڑوں کل وقتی کارکن اور ہزاروں دوزواہ پید اکئے، جن کا آج جینا مرنا پارٹی کے لئے ہے۔ پارٹی مشن کے لئے ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے لئے ہے۔

اس تحریک سے پہلے بلوچ سیاست ہمیشہ چند حلقوں یا چند شہروں تک محدود رہا ہے۔ یہ کریڈٹ ڈاکٹر منان بلوچ ایسے ہستیوں کو جاتا ہے کہ انہوں ایسے علاقوں میں قومی سیاست کی آبیاری کی جہاں یہ شجر ممنوعہ تھا، جہاں قومی سیاست کا نام ونشان تک عنقا تھا۔ ان علاقوں میں ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت اور سیاسی بصیرت سے آج قومی تحریک کے جہدکارمختلف محاذوں پرقابل فخر کردارادا کر رہے ہیں اوربلوچ نیشنل موومنٹ کے دو کونسل ایسے علاقوں میں منعقد ہوئے جہاں کسی سیاسی سرکل اور مجلس کے آثار نہیں ملتے تھے۔ دوہزار دس کا سیشن جھاؤکے حصے میں آیا جہاں تین دہائیوں سے پاکستان کے پروردہ ایک خاندان کا راج تھا، جنہوں نے اس علاقے کو ہرمیدان میں قرون وسطیٰ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ لیکن جب ڈاکٹر منان بلوچ نے قدم رکھا تو جادو سا ہوگیا۔ شخصی راج کے پرخچے اُڑگئے اورقومی سیاست ہر گدان میں پہنچ گیا۔ آج بھی جھاؤ، گریشگ، کولواہ جیسے مختلف علاقوں میں ڈاکٹر منان بلوچ کی کردار جہدکاروں کی صورت میں دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کررہے ہیں۔

ڈاکٹر منان بلوچ کے لئے قومی سیاست ایک عبادت تھا۔ روحانی سرشاری کا دوسرا نام، اس لئے ایک جگہ ٹک کر بہتر وقت کا انتظار کے بجائے جدوجہد کے لئے بہترمواقع پیدا کرنے اور دشمن کے لئے بلوچ سرزمین توے کی مانند گرم کرنے میں مصروف رہے۔ شہر، کوچگ، پہاڑی سلسلے ہر اس جگہ پہنچے جہاں ایک بھی بلوچ کا گدان موجو د تھا۔ میں گدان کا لفظ محاورتاَ استعمال نہیں کررہا ہوں بلکہ حقیقت میں ڈاکٹر منان نے شاشان، سورگر، کولواہ، زامران، بالگتر، پروم جیسے دیہی علاقوں اوران سے متصل پہاڑی سلسلے سب سے پہلے سر کرلئے اور آزادی کا پیغام بلوچ گدانوں تک پہنچایا۔

تیس جنوری 2016 کو بلوچ سیاست کا ایک اہم باب ڈاکٹرمنان جان کے قتل کی صورت میں ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ وہ انسان جس نے بلوچ قوم کی بے پایاں خدمت کرنا تھا، قومی آزادی کے لئے مزید مسافتیں طے کرنی تھی، مزید عملی وسیاسی کارنامے سرانجام دینے تھے لیکن مستونگ کے کلی دتوئی میں یہ سارے امکانات ہمیشہ کے لئے بظاہرمعدوم ہوگئے۔ جو لہو حق کے لئے بہتا ہے وہ معدوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ فنا کے بجائے ہزاروں، لاکھوں کی بقا کا وسیلہ بنتا ہے۔ ڈاکٹرمنان بلوچ اور ساتھیوں کا لہوبلوچستان کے ہر افق میں شام کی سرخی میں ہمیں ہر روز آزادی کا پیغام دیتے ہیں۔ ہر روز ہماری آشائیں جگاتے ہیں ہر روز ہمیں مزید قوت کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج بے شک دشمن بہت طاقت ور ہے، ایک ریاست بمع تمام اداروں کے بلوچ سرزمین پر یلغار کرچکا ہے، کرایہ دار قاتل اور مرسنریوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے حواری ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اورچندے حیلہ گر بلوچ کے جذبات سے کھیلنے کی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نہتے بلوچ فرزند کٹ رہے ہیں، زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں لیکن جنگ جاری ہے۔ محاذوں کی تعداد بڑھ رہے ہیں۔ بلوچ اور بلوچیت توانا ہورہا ہے۔ دشمن کے لئے سرزمین اب گرم حلوہ نہیں رہا گوکہ ابھی جمع تفریق کا وقت تو نہیں آیا لیکن ڈاکٹر منان بلوچ سمیت تمام شہدا کے لہو ہم سے یہی تقاضے کرتے ہیں کہ اپنے صفوں کا جائزہ لینے کے عمل کو نماز کی طرح فرض سمجھ کر آگے بڑھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم شہدا کے لہو کے سامنے سرخرو ہورہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔