بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 7 – برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد

1055

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 7 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (حصہ اول)

            بلوچستان برطانوی مداخلت سے قبل ایک وسیع وعریض خطے زمین پر مشتمل تھا۔ اس کا کل رقبہ ماہرین و مورخین کے مطابق 3,40,000 مربع میل تھا 1) ( اس خطہ زمین میں تقریباً 100 فیصد بلوچ قبائل قلات کی مرکزیت میں آرام و سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک تقریباً تمام بلوچ علاقہ قلات کی مرکزیت میں متحد ہوچکا تھا۔بلوچ قبائل قدیم طرز قبائلیت سے جدید قوم پرستانہ اتحاد کی طرف گامزن تھے اور دور ونزدیک یہ حکومت ’حکومت بلوچی ‘ کے نام سے شہرت پاچکی تھی اور قلات کے حکمران قبائلی حکمران کی بجائے قومی حکمران یعنی خان بلوچ کہلاتے تھے ۔

            جس زمانے میں بلوچستان امن و استحکام کی جانب گامزن تھا آس پاس کے دیگر خطوں افغانستان، ایران، سندھ اور ہندوستان میں شورشیں بلند ہورہی تھیں اور ان خطوں میں بیرونی مداخلت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ خصوصاً ہندوستان کی وسیع وعریض مغل سلطنت پانی پت کی تیسری لڑائی 1761ء (2) کے بعد مغل حکمران کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ پانی پت سے قبل مرہٹوں نے ان کا بھرکس نکال دیا تھا اور مرہٹوں کی شکست کے بعد افغانوں نے انہیں بے یارومددگار ایسٹ انڈیا کمپنی کے غیر ملکی تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا لہٰذا اب مغل ایک ایسے خطے کے حکمران تھے کہ جس پر انہیں کوئی اختیار نہیں تھا اور پورے ملک میں انگریزوں کے احکامات کی پیروی ہونے لگی تھی۔ انگریز آہستہ آہستہ برصغیر کی سیاست و معیشت پر حاوی ہونے لگے اور آخر کار انہیں ہندوستان جیسی ایک عظیم معاشی منڈی پر قبضہ حاصل ہوا۔ اس عظیم خطے پر دسترس حاصل کرنے کے باوجود ان کی ہوس ملک گیری کی خواہش میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ مزید ممالک پر قبضہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے گئے۔ برطانوی حکام کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ وہ اپنی سرحدیں روس کے ساتھ ملا کر نہ صرف اس کے آگے بڑھنے کی راہیں مسدود کردی جائیں بلکہ دنیا کی عظیم ترین مملکت قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل کرسکیں ۔ مورخین کے مطابق برطانیہ نے روس کو برطانوی ہندوستانی مقبوضات سے دور رکھنے کے بہانے افغانستان پر حملہ اور قبضہ کرنے کی پالیسی ترتیب دی۔(3) مگر دراصل طاقتور قوتیں ہمیشہ مختلف حیلوں بہانوں اور الزام تراشیوں کو سبب بنا کر آزاد اور خود مختار ممالک پر قبضہ کرتی ہیں اور یہ قانون ازل سے اسی طرح چلا آرہا ہے۔ طاقتور کو کہیں پر حملہ کرنے یا قبضہ کرنے یا ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے بہانے تراشنے سے کمزور اور نہتے ممالک روک نہیں سکتے۔ لہٰذا برطانیہ نے بھی اٹھارہویں صدی میں ہندوستان میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو روسی جارحیت کے بہانے افغانستان پر قبضہ کرنے کی پالیسی کو حتمی شکل دی۔ مگر یہ پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی تھی جب تک کہ ہندوستان اور افغانستان کے مابین آزاد اور خود مختار ریاستوں کو کچلا نہ جاتا یا پھر انہیں معاہدات کے ذریعے راستہ دینے پر رضامند نہ کیا جاتا لہٰذا ان خطوں یعنی سندھ و بلوچستان میں انگریزوں نے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کا جال پھیلانا شروع کیا۔ برطانوی مقاصد کا ذکر تو گذشتہ سطور میں ہوا کہ وہ صرف اپنی ہوس ملک گیری کی خواہش پوری کرنے کی خاطر آزاد اور خود مختار خطوں پر چڑھ دوڑا البتہ انگریز جاسوسوں کے مقاصد ان کے سپاہیوں اور جرنیلوں سے بھی زیادہ کریہہ اور مکروہ تھے۔ انہیں برطانوی حکام اور اختیارداروں کی جانب سے سندھ، بلوچستان اور افغانستان کے فوجی، سیاسی، جغرافیائی حالات معلوم کرنے کی غرض سے مذکورہ بالا خطوں کی جانب بھیجا گیا تھا مگر اس کے علاوہ ان جاسوسوں نے مزید کئی موضوعات پر کام کیا اور ان آزاد خطوں میں انتشار پھیلایا۔

            برطانوی جاسوسوں کے عزائم ان کی اپنی تحریروں سے واضح ہوتے ہیں۔ ان کے عزائم پر روشنی ڈالنے سے قبل ان کی آمد کا تذکرہ ضروری ہے یعنی یہ کہ وہ کون تھے۔ وہ کیا کام کرتے تھے اور بلوچستان میں ان کی آمد کب اور کہاں کہاں سے شروع ہوئی۔

            انگریزوں نے اپنی جاسوسی مہمات برائے بلوچستان کا آغاز 1795ء میں کیا جب انہوں نے غلام سرور نامی ایک شخص کو سفر خرچ اور دوسری سہولیات دے کر بلوچستان اور سیستان کے حالات معلوم کرنے کی غرض سے ان خطوں کی جانب روانہ کیا(4) غلام سرور ایک سال تک بلوچستان اور سیستان میں مہم جوئی کرتا رہا اور یہاں کے جغرافیائی، سیاسی، معاشرتی، فوجی اور معاشی حالات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرتا رہا اور ایک سال بعد یہ تمام معلومات اس نے بمبئی میں تعینات برطانوی حکام تک پہنچادی(5) غلام سرور کی حاصل اور مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں برسوں برطانوی حکام و اہل کار سوچتے رہے اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیتے رہے اور بلوچستان کی عظیم وسعتوں، وادیوں، پہاڑی سلسلوں، میدانی بھول بھلیوں اور دشتوں میں مہم جوئی کے لئے مناسب افراد تلاش کرتے رہے اور ساتھ ہی بلوچستان و سیستان میں سفر کرنے اور ممکنہ خطرات کی تمام تر جزئیات کا مطالعہ کرتے رہے۔ آخر کار 1809ء میں انگریزی حکام نے اپنے تین فوجی افسروں کا اس خطرناک مہم کے لئے انتخاب کرلیا ان فوجی افسران میں لیفٹیننٹ ہنری یوٹینگر، لیفٹیننٹ گرانٹ اور کیپٹن کرسٹی شامل تھے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے لئے الفنسٹن، میلکم، ڈپری، میلسن کا انتخاب کیا گیا جبکہ ایران کے لئے پر سی مونسورتھ سائیکس کو منتخب کیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی ان خطوں میں جاسوسی یا سرکاری خدمات بجالانے کے لئے کئی دیگر برطانوی فوجی اور سول افسران کو بھیجا گیا جو مختلف طریقوں سے اپنے ملک و قوم کی خدمات بجالاتے رہے اور برسوں تک اپنے فوجیوں اور حاکموں کی خوشنودیاں حاصل کرتے رہے۔ اپنی مہمات کی تکمیل کے بعد ان برطانوی جاسوسوں میں سے اکثر نے اپنے تجربات اور سفر کے حالات و واقعات کو تحریری شکل دی اور انہیں شائع کروایا ان جاسوسوں کی اپنی تحریروں سے ہی ان کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کی حکومتوں نے انہیں جغرافیائی اور فوجی مقاصد کے حصول کی ممکنات کے بارے میں معلومات کی غرض سے ان مذکورہ خطوں کی جانب بھیجا تھا تو دوسری طرف ان جاسوسوں نے کئی دیگر موضوعات کو بھی اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے جو ان کو تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ ان جاسوسوں کی تحریروں سے ایک طرف اگر ان کے مکروہ عزائم کی وضاحت ہوتی ہے تو دوسری طرف اس خطے اور یہاں بودوباش رکھنے والوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔