ایک عظیم کردار: شہید ڈاکٹر مناں جان – شئے رحمت بلوچ

839

ایک عظیم کردار: شہید ڈاکٹر مناں جان

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ رہبر بہت ہی آسان سا لفظ ہے، لیکن اس لفظ کو ثابت کرنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں، ایک رہبر بننا اتنا مشکل کام تو نہیں ہے لیکن رہبری کے جو شرط و شرائط ہیں ۔ وہ ہر کسی سے پورا نہیں ہوتے ، اگر کوئی لیڈر بننا چاہے ، لیڈر بن بھی سکتا ہے، لیکن ہر کوئی لیڈری نہیں کر سکتا کیونکہ ، لیڈر کو اپنا ہر لفظ ادا کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے، ہر قدم بڑھانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ اس قدم سے کوئی نفع یا نقصان تو نہیں ہوگا، یہ قدم اٹھانے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ اس قدم کے اثرات کیا ہونگے؟ کہیں یہ نقصاندہ تو ثابت نہیں ہوگا؟

لیڈر کو ہر بات کہنے سے پہلے اسی لئے سوچنا پڑتا ہے کہ میرے الفاظ کس قدر کسی کی دل آزاری کرتے ہیں، لیڈر کا لہجہ نہ سخت ہونا چاہئے نہ نرم ہونا چاہئے، لیڈر کو دیکھنا چاہیئے کہ کس طرح ڈیل کرنا ہے، کہیں حالات میں لیڈر اپنے ساتھیوں کو ڈانتا بھی ہے، لیکن اس کا مطلب کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا، ایسے حالات آتے ہیں جہاں ایک غلط فیصلے سے ، پورا مشن خراب ہوسکتا ہے، ہر کسی کو خیال رکھنا پڑتا ہے، اور ایسے کیس میں اگر لیڈر کی نرم لہجے کی وجہ سے کوئی یہ غلطی کر بیٹھتا ہے تو سب لیڈر کو ہی غلط کہیں گے۔ کیونکہ اگر کسی تنظیم کا کوئی بھی ایک ساتھی غلطی کرجاتا ہے تو اس کو نہیں سب سے پہلے اُسکے رہبر اور تنظیم کو غلط قرار دیا جاتا ہے۔ تنظیم کو مظبوط ممبر کرتا ہے اور تنظیم کو کمزور بھی ممبر ہی کرتا ہے ۔

شہید ڈاکٹر مناں جان ایک انتہائی نرم دل انسان تھے، وہ ہر کسی سے بہت ہی نرمی سے پیش آتے تھے۔ یاد رہے شہید ڈاکٹر منان جان کا ایک پیر صحیح نہیں تھا، جس کی وجہ سے شہید منان کو چلنے میں کافی تکلیف ہوتا تھا، لیکن وہ کبھی بھی یہ بہانہ نہیں بناتے، کبھی بھی اپنے کمزوری کو یہ موقع تک نہیں دیا کہ وہ اس کے عظیم کام کے سامنے رکاوٹ بن جائے، شہید منان نے ایک معزورشخص ہونے کے باوجود ہر گھر بلوچ قومی پیغام کو پہنچایا کہ بلوچ قوم کو غلامی سے آزاد کرنا ہمارا اور تمہارا فرض ہے، اس ظالم ریاست اور اس ظالم فوج کے خلاف لڑنا اپنا آزادی حاصل کرنا، ہر بلوچ کا فرض ہے، جب تک ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کمزوریوں کو آگے لاتے رہینگے اور ان کو اپنے کام کے سامنے آنے دینگے اس وقت تک ہم اپنا فرض سرانجام نہیں دے سکتے۔

شہید ڈاکٹر نے بحیثیت ایک بلوچ لیڈر اپنے سر کا نذرانہ پیش کیا، اپنی جان کی قربانی دی، جس طرح ہزاروں بلوچ شہید ہوگئے ہیں اسی طرح سے ان عظیم ناموں میں انہوں نے اپنا نام کا بھی اضافہ کیا، شہید ڈاکٹر مناں جان کی قربانی بلوچ قوم کےلیے واقعی ایک نقصان تھا، اس کے جانے کے اثرات ہمارے سامنے ہیں ۔ لیکن ڈاکٹر منان جان کی قربانی نے بہت سے لوگوں کو حوصلہ بخشا ہے ۔ لیڈر کی شہادت سے اکثر قوموں کے نقصان ہوتے ہیں۔ لیکن “دنیا میں کم ایسے لیڈر گذرے ہیں جن کو بروقت موت نصیب ہوئی ہو لیکن وہ اپنے جان کا نظرانہ دےکر ،اپنے آنے والے نسل کو ہمت اور حوصلہ بخشتے ہیں ، وہ اپنے نظریے سے اپنے جیسے اور کئی ایماندار ،مخلص ، بہادر ، نڈر پیدا کرتے ہیں، جن میں کام کرنے کی مزید ہمت ہو۔ جو ہر قربانی خوشی خوشی دی سکے۔ جن کےلیے وطن ہی سب کچھ ہو۔

تاریخ گواہی دیگا کہ بلوچ وطن پر کسی بھی طریقے سے کوئی بھی قبضہ گیر آرام سے نہیں بیٹھا ، ہزاروں فرزندوں نے اس قوم کیلیے قربانی دی ہے۔ اپنے جان کا نظرانہ دیا ہے، لیکن کسی بھی قیمت پر بلوچستان کا سودا نہیں کیا، بلوچستان سے اپنے وفا کا گواہی دے دیا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ہزاروں شہیدوں کے قربانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فرض سرانجام دیں۔

بلوچ قومی بقاء کےلیے قربانی صرف ان کے اوپر فرض نہیں جنہوں نے اپنا جان دیا ، اور نہ ہی ہمارے لیڈر پہ فرض ہے ، بلوچ قوم کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ، ہم سب کو ایمانداری سے اپنا فرض سرانجام دینا چاہیے ، اور بلوچستان کے دشمنوں کے ساتھ لڑنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔