منت وار سردار اختر مینگل – محمد عمران لہڑی

510

منت وار سردار اختر مینگل

تحریر۔ محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں سرداری نظام جہاں کئی منفی رویئے اپنے اندر سمو رکھا ہے، وہاں کچھ مثبت اثرات بھی اس میں کار فرما ہیں، لیکن وقت اور عوام کی شعوری زاویئے کے ساتھ کبھی منفی اثرات غالب ہوئے ہیں تو کبھی مثبت اثرات عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیئےہوئے ہیں، آج سے کچھ عرصہ قبل اسی نظام کے تحت بلوچ نوجوانوں کے اکثریت ان سردار, جاگیردار, وڈیروں, میر و معتبروں کے ہمراہ بندوق گلے میں لٹکائے فخریہ انداز میں اپنا قیمتی وقت ان کے غلامی میں گزارتے تھے، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور شعور اور بی ایس او کے سرخ پرچم روشن مشعل کے تلے بلوچ نوجوان ان کے غلامی سے نکل گیا، آج اگر کوئی سردار اپنے سر پر قوم کی دستار(پگڑی) رکھی ہوئی ہے تو نوجوان ان سے فرائض کی ادائیگی پر سوال اٹھا رہے ہیں، آج کا نوجوان تعلیم یافتہ، باشعور ہے، اب کسی سردار کو یہ موقع ہرگز نہیں دے گا کہ اس کے کندھے کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کرے. آج کے نوجوان ان سرداروں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔

آج کا دور غفلت کا دور نہیں،جی حضوری کا دور نہیں. سر جھکانے کا دور نہیں، جاگیرداروں کا دور نہیں، سرداروں، میر و معتبر کا دور نہیں، آج کا دور باشعور لوگوں کا دور ہے، آج کا دور تعلیم کا دور ہے. آج کا دور حقیقی قومپرستی کا دور ہے، سیاست کا دور ہے آج کا دور نوجوانوں کا دور ہے، آج کا دور کتاب کا دور ہے، آج کا دور شعور کا دور ہے. آج کے دور میں مزدور, کسان, چرواہے کا بھی بیٹا اٹھ کر ان سرداروں،جاگیرداروں، وڈیروں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہا ہے اور ان کو اپنے فرائض انصاف کے ساتھ نبھانے پر مجبور کر رہا ہے۔

شاید ایسا کوئی سردار ہو جس کا ماضی بے داغ ہوجو ماضی میں قومی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی ہو منفی رویوں سے مبرا ہو بہت مشکل ہے۔

بلوچستان میں اکثریت کا ماضی غلطیوں سے بھرا پڑا ہے،ہر ایک نے اپنے دور میں بلوچ قوم کو پسماندہ رکھا ہے ہر ایک نے بلوچ قوم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، ہر ایک نے بلوچ قوم کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن وہ وقت بھی دور نہیں کہ بلوچ قوم کے نوجوان اٹھ کر ان سرداروں کے گریبان پکڑ کر ماضی کے کوتاہیوں کا حساب لے۔

کچھ سرداروں نے ماضی کے غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنے غلطیوں پر نادم ہوکر شرمندگی کا اظہار کیا ہے جو اپنے ماضی میں کیئے ناانصافیوں, ناجائز ظلم و زیادتی کے داغ کو دور کرنے کے لیے قوم کے حقوق کی بات اور عوام کی خدمت کررہے ہیں اب مثبت کردار اور رویہ سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جہد کر رہے ہیں آج وہی سردار عوام میں مقبول ہیں۔

سردار اختر جان مینگل آج کل بلوچ عوام کے دلوں پر راج کر رہا ہے، آج کل اکثر مجالس میں سردار اختر جان کی تعریف و ثنا سننے کو ملتا ہے،بلوچ نوجوان آج اگر کسی سردار کے رویہ اور گفتار و عمل سے خوش ہیں تو وہ ہے سردار اختر مینگل ہے. آج اگر کوئی ریاست کے ظلم و زیادتی پر ایوانوں میں بات کر رہا ہے تو وہ یہی سردار ہے، آج اگر کوئی ریاستی دہشتگردی میں لاپتہ ماؤں، بہنوں کی بات ایوان میں کر رہا ہے تو وہ بھی یہی سردار ہے۔

قومی اسمبلی کے فلور پر جس انداز سے بلوچ قوم کی حقوق اور اس پر ظلم و ستم کے گرائے پہاڑ کی بات کر رہے ہیں یقیناً وہ قابل ستائش ہے،شاید اب سردار صاحب اپنے ماضی کے غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے. اگر سردار کے ماضی پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ 28 مئی 1998 کی ایٹمی دھماکے کی ہے،جہاں سردار صاحب بلوچستان کا وزیر اعلٰیٰ تھا، اب اپنی سیاست کا نصب العین بلوچ قوم کی حقوق کی جدوجہد کو بنایا ہے.2018کی الیکشن میں قومی اسمبلی کے نشست کو جیت کر وہاں جس انداز سے پُر جوش خطاب میں لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا اس سے ریاست کے خفیہ ادارے کچھ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا. لیکن اس سچائی سے کوئی آنکھ نہیں چراسکتا کہ جہاں ایک لاپتہ بلوچ بازیاب ہوتا ہے تو پانچ اور بلوچ لاپتہ ہوتے ہیں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

سردار اختر جان نے اپنی قومی اسمبلی کی پہلی خطاب میں جس دکھی دل کے ساتھ لاپتہ افراد کا زکر اور لسٹ صدر ایوان کو پیش کیا اسے سن کر ہر آنکھ اشکبار ہوا اور اس کی ہمت کو سلام کیا. پھر اپنی سیاسی مقاصد کو اسی طرح جاری رکھاآج قومی اسمبلی میں بلوچ قوم پر ظلم و ستم، نا انصافیوں اور وسائل کے لوٹ مار کے حوالے سے بِلا روک ٹوک بات کرتا ہے،حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہماری ماؤں, بہنوں کی عزت سے زیادہ ہمیں کچھ عزیز نہیں۔

گذشتہ ہفتوں میں آواران سے بلوچ ماؤں کو ریاست کے اہلکار اغواء کرکے پھر جھوٹے مقدمے اور اسلحہ برآمدگی کا ڈرامہ رچا کر ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، جس میں ان بلوچ ماؤں کے چہرے اور سامنے رکھے اسلحے کو دکھایا گیا تھا، اس حولے سے سردار اختر جان مینگل نے یہ کہہ کر ریاست پر واضح کیا ” کسی بلوچ کو بندوق کے نوک پر آپ پاکستانی نہیں بنا سکتے”۔

گذشتہ دن بلوچ علاقہ تونسہ میں بلوچ عوام کا ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر میں سردار اختر جان مینگل نے اس تاریخی جلسے میں ان بلوچ علاقوں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو واپس بلوچستان.میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا،سردار صاحب کے اس مطالبے کو بلوچستان کے عوام میں بہت پذیرائی ملی اور بلوچ لیڈران نے اس کی تائید کی ،ایک مرتبہ پھر کوہ سلیمان کے پہاڑوں نے بلوچ قومی حقوق کے نعرہ سنا۔

منت وار سردار اختر جان مینگل۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔