کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج

219

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3764دن مکمل ہوگئے۔ سوراب سے سماجی کارکن میر خدا بخش و دیگر نے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2009میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے سابقہ حکومت کو رضا مند کرنے کی مہم چلائی کہ وہ تمام لاپتہ افراد کو باحفاظت بین الاقوامی کنونشن کے اصولوں کے تحت رہا کروائے، کمیشن کی طرف سے سابق صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور پارلیمانی اراکین کو یاد داشتیں پیش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2007میں اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی جس کے نتیجے میں کمیشن برائے انسانی حقوق اور دوسروں کی درخواستیں سماعت سپریم کورٹ میں لگ گئی مگر ان مقدمات کی سماعت 2009شروع نہ ہوسکی جب سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکم دی اکہ اسیے تمام افراد کے بارے میں تفصیلات عدالت میں پیش کریں جن کو بیرون ممالک بھیج دیا گیا ہے یا ایسے لاپتہ افراد جو اس وقت عقوبت خانو میں موجود ہوں، اٹارتی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ایسے افراد کے بارے میں معلومات ملیں ہیں اور ان معلومات کو متعلقہ صوبوں میں بھیج دیا گیا ہے تاکہ لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جاسکے اور اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہو تو اس کا فیصلہ عدالت سے کروایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو مسئلہ سرفہرست تھا اس کی یقین دہانی کرائی گئی کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو کرلیا جائیگا۔ وزیر اعظم نے 26نومبر کو کہا کہ بہت سے لاپتہ افراد اسی منصوبے کی رو سے رہائی پاسکی ہے اور انہوں نے یقین دلایا کہ باقی ماندہ افراد بھی جلد ہی اپنے گھروں کو واپس پہنچ جائیں گے۔

ماما قدیر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ان کیسوں کی دوبارہ سماعت کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی بارے کوئی خاطر خواہ کاروائی سامنے دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی اس ظلم کو روا رکھنے والے افراد پر کوئی گرفت سامنے آئی ہے۔