پنجاب میں بلوچ طلباء پر غنڈہ گردی – دوستین نور بکش

148

پنجاب میں بلوچ طلباء پر غنڈہ گردی

تحریر: دوستین نور بکش

دی بلوچستان پوسٹ

کل سوشل میڈیا میں یہ بات چل رہی تھی کہ اسلامی جمعیت طلبہ تنظیم کے غنڈوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب یونیورسٹی کے چئیرمین اور ان کے ہمراہ چیف کوارڈینیٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ پنجاب میں موجود تنظیموں کے لیئے کوئی خاص بات نہیں بلکہ ایک معمولی اور عام سی بات ہے، اس طرح کے واقعات پنجاب میں موجود ہر یونیورسٹی میں بلوچوں و پشتونوں کے ساتھ کافی سالوں سے مسلسل درپیش آرہے ہیں ۔ آخر اس طرح کب تک چلتا رہےگا؟ بذات خود میں نے چار سال بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے گریجویشن کی ڈگری حال ہی میں مکمل کی ہے۔ ان چار سالوں میں ہم بلوچوں و پشتونوں کے ساتھ اس طرح کے کئی واقعات پیش آئیں، مگر کبھی بھی یونیورسٹیوں کے انتظامیہ اور پنجاب پولیس نے ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کوئی بھی تنظیم کسی بھی یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے انتظامیہ کے سپورٹ کے بغیر یونیورسٹی میں موجود کسی بھی طالبعلم کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ظاہر سی بات ہے ان نتظیموں کو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور یونیورسٹیوں کے انتظامیہ سپورٹ کرتے ہونگے تب جا کر تنظیمی ممبران اس طرح کی کارکردگی سر انجام دیتے ہیں، ورنہ اور کسی شخص میں اتنی ہمت نہیں کہ طالبعلم پہ ہاتھ اٹھا سکے یا پھر شاید بلوچ و پشتون طلبہ کو گمراہ کرنے کی سازش چل رہی ہے؟ یا یہ بھی ہو سکتا ہے یہ ایک سیاسی عمل کے تحت ہو رہا ہے۔

تنظیمی ممبران کو بلوچوں و پشتونوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے؟ مزید اپنا تجربہ بیان کرتا چلوں، اگر ہم بلوچوں و پشتونوں کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے ماضی کی یادوں کا مشاہدہ کریں تو ہمیں بلکل یہی سب نتیجے کی صورت میں ملے گا، جو حال میں ہو رہا ہے کب تک اسلامی جمیعت بلوچوں و پشتونوں پہ اس طرح ظلم ڈھاتے رہیں گے، آخر کب تک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کی انتظامیہ جمعیت والوں کو سپورٹ کرتے رہیں گے؟ اگر میں غلط ہوں،” تو کیا کوئی بھی شخص اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کوئی بھی تنظیم کسی بھی یونیورسٹی میں بغیر سپورٹ کے یونیورسٹی میں داخل ہو کر اسلحہ استعمال کر سکتا ہے یا ہوائی فائرنگ کر سکتا ہے؟ میں تو کہوں گا اس طرح کا کام وہی تنظیم کر سکتا ہے جس کو کوئی دنیاوی قوت سپورٹ کرے۔ ویسے سوچنے کی بات تو یہ ہے اگر پنجاب میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آئے تو پنجاب پولیس اسی وقت ایکشن لیتا ہے یا پنجاب میں کسی بھی یونیورسٹی میں کوئی واقعہ پیش آئے تو پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وائس چانسلر اسی وقت اس واقعہ کے خلاف ایکشن لیتے ہیں، تو بلوچوں و پشتونوں کی غلطی کیا ہے جو ان کے ساتھ سوتیلوں سے بدتر سلوک ہو رہا ہے؟ کیا پنجاب حکومت بلوچوں و پشتونوں کو اسی بنا پر محفوظ نشستوں کے لیئے منتخب کرتا ہے تاکہ پنجاب میں موجود تنظیمیں ان طلبہ کو دھمکا کر اپنے تشدد کا نشانہ بنائیں؟

کل کے واقعے میں اسلامی جمعیت تنظیم کے غنڈوں نے بغیر کسی وجہ کے پنجاب یونیورسٹی کے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے چیرمین اور کوآرڈینیٹر (Coordinator) کو تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے علاوہ رات کو دوبار پنجاب یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل میں داخل ہو کر ہوائی فائرنگ کی۔ اس طرح سرعام دہشتگردی کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بندہ گرفتار نہ ہو سکا۔ پنجاب یونیورسٹی پاکستان کے تمام گورنمنٹ یونیورسٹیوں میں سب سے بڑا یونیورسٹی ہے، جو واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچوں و پشتونوں کے ساتھ پیش آیا ہے وہ سراسر دہشتگردی ہے اور اس دہشتگردی کے خلاف ایکشن نہ لینا پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت کے لیئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ کل پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے انتظامیہ کی موجودگی میں یہ واقعہ پیش آیا مگر پھر بھی ان لوگوں نے اس دہشتگردی کے خلاف ایکش نہیں لیا اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا اس وقت انتظامیہ اور وائس چانسلر نیند میں تھے اور سنہرا خواب دیکھ رہے تھے؟ یا پنجاب پولیس کسی اور کام میں مصروف تھا؟ یا پھر تعلیم سے محروم کرنے کے لیے یہ ایک سازش کے تحت بلوچ و پشتون طالبات کو گمراہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ پنجاب کے سی۔ایم بھی ایک بلوچ ہی ہیں اور وہ اپنے ہی طلبہ کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اگر اب ہم گلہ کریں بھی تو کس سے کریں؟ پنجاب یونیورسٹیوں میں نہ صرف بلوچ و پشتون طلبہ بلکہ سندھی اور سرائیکی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے بلوچستان حکومت سے شکایت ہے جو ہمیں پنجاب میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں مگر ہمارا تحفظ نہیں کر سکتے، بلوچستان حکومت ہمیں پنجاب میں بھیجتا ہی کیوں ہے جب ہمارے حق کے لیے آواز اٹھا نہیں سکتا؟ پنجاب یونیورسٹی میں سرعام دہشتگردی سے بلوچوں و پشتونوں کے ہمراہ سندھی اور سرائیکی بھی بےحد تنگ آچکے ہیں، پنجاب یونیورسٹی میں کوئی بھی برا کام انجام پائے اس میں جمعیت والوں کا ہاتھ لازمی ہوتا ہے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ تنظیم کی دہشتگردی کی وجہ سے کئی طالبعلموں کو اپنا تعلیم ادھورا چھوڑنا پڑا مگر پھر بھی یونیورسٹی کے انظامیہ اور وائس چانسلر جمعیت والوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے نہ ان کو روکنے کا مثبت طریقہ اپناتے ہیں اور نہ ہی پنجاب پولیس اس کے خلاف ایکشن لیتا ہے۔

میں معذرت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ پنجاب حکومت اپنے صوبے میں دیئے گئے محفوظ نشستوں کو بند کر دیں یا بلوچستان حکومت ہمیں پنجاب بھیجنا بن کر دے، جب دونوں صوبوں کے حکمران طالبعلموں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو معصوم طالبعلموں کو بھیجنا بھی بند کریں۔ جس طرح یونیورسٹیوں میں سیاست ہو رہا ہے اس سے طلبہ کا مستقبل اندھیروں کی طرف ڈوبتا جا رہا ہے کیوں ان معصوموں کے سنہرے مستقبل کے ساتھ اس طرح ناگوار سیاست ہو رہا ہے آخر ان سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ اب اگر کسی کو کچھ کرنا ہے تو وہ بلوچ و پشتون طالبعلموں کو، ان کو خود اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ہوگا اگر طالبعلم یک جا ہونگے تو اس ظلم کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں گے اور پنجاب کے یونیورسٹیوں میں دہشتگردانہ نظام کو ختم کر کے درست تعلیمی نظام قائم کر سکیں گے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں جب تک طالبعلم یکجا نہیں ہونگے تب تک یہی نظام چلتا رہے گا ان طالبعلموں کے ساتھ سماجی کارکنوں (Social Activist) کو بھی اپنا کردار بخوبی ادا کرنا چاہیے۔ تب جا کے یہ دہشتگردانہ نظام کا جڑ سے خاتمہ ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔