بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیاں جنگی جرائم کے شکار خطوں جیسی ہے – ماما قدیر

99

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3713دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے کارکن جبکہ کوئٹہ سے انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نور نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لواحقین کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دس سال سے زائد عرصے سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ سمیت احتجاج کے تمام پرامن ذرائع کے استعمال اور بلوچ قوم کی بھرپور آواز نے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ہے، بلوچ فرزندوں کو ریاستی اداروں کے ذریعے اٹھاکر طویل عرصے تک لاپتہ کرنے اور انہیں خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں انتہائی سفاکیت اور ناقابل بیان تشدد کے ذریعے شہید کرنے اور لاشیں مسخ کرکے ویرانوں میں پھینکنے کے یہ اندوہناک واقعات تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین، اصولوں اور انسانی حقوق کے کنونشنز کے رو سے نسل کشی اور جنگی جرائم کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا اس نوعیت کے جرائم اور کاروائیوں یں ملوث ریاست یا ریاستی عناصر کو عمومی طور پر ان جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدل و انصاف کے قائم کردہ اداروں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمبوڈیا، یوگو سلاویہ اور دیگر علاقوں، ریاستوں میں نسل کشی جیسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا جہاں انہیں قرار واقعی سزائیں سنائی گئیں۔

ماما قدیر نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی ریاستی خلاف ورزیوں میں آنے والی شدت بھی جنگی جرائم کے شکار خطوں جیسی ہے، اٹھاؤ، مارو پھینکو کی پالیسی ظاہر کررہی ہے کہ بالادست قوتیں پوری بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔ نوآبادیاتی مقاصد اس امر کا عکاس ہے کہ پاکستانی بالادست قوتوں کو صرف بلوچستان کی سرزمین چاہیئے اس پر بسنے والے بلوچ جیئے یا مرے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔