نا مٹنے والی، بی ایس او – میر بلوچستانی

183

نا مٹنے والی، بی ایس او

تحریر: میر بلوچستانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی نصف صدی سے زائد کی قربانیوں بھری تاریخ میں قیادت نے بےشمار نشیب و فراز دیکھے اور کئی ایسے مواقع بھی آئے جب زوال کے گہرے بادلوں نے مایوسی اور بیگانگی کے کربناک عذاب بھی ڈھائے۔ مگر بی ایس او کی پختہ نظریات نے ہر زوال کے بعد دوبارہ عروج کی بلندیوں کی طرف ہمیشہ رخت سفر باندھا اور نئے عزم و ولولہ کے ساتھ منزل کی جانب کوچ کیا۔
حالیہ دہائی میں جب ایک بار پھر بی ایس او بکھر کر شجرممنوعہ بنی اور ساتھ ہی قابل ترس حالت کو پہنچی تو سچے نظریات کے داعی کارواں کے سپاہیوں نے تاریک عہد میں نئی شمعیں روشن کرنے کا انقلابی بیڑا اٹھایا اور بی ایس او کو اسکا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلانے کا عظیم عزم کیا۔

ایک دہائی کی مکمل جدوجہد میں ان گنت مسائل کا سامنا بھی ہوا مگر ہر مشکل کو شکست و ریخت کرنے میں پھر انقلابی نظریات و جذبات نے موثر اوزار کا کام دیا جن سے مشکلات عبور ہوتے رہے۔

مقصد، بی ایس او کی ازسر نو آزادانہ و خودمختارانہ تشکیل تھا، تاکہ نوجوان نسل انقلابی قوت بنے اور نئی نسل کی درست سائنسی تربیت کر کے مستقبل کی راہنما قیادت تراشے جو اپنے جمہوری حقوق کی پاسبان بنے۔ اس صبر آزما سفر میں سینکڑوں کی تعداد ایک وقت میں سکڑ کر چند گنے چنے افراد میں بھی محدود رہ گئی مگر ہمت و کمٹمنٹ افرادی قوت کی محتاج نہیں رہتی بلکہ سائنسی نظریات کی مرہون منت ہوتی ہے جو بی ایس او کے تاریخی اساس ہیں۔ درست نظریات کا دامن تھامے ساتھیوں نے معیاری قوت کو جرات و بہادری کے ساتھ مقداری قوت میں بھی بدل ڈالا اور بی ایس او کی 51ویں یوم تاسیس پر 25 تا 27 نومبر 2018 کو اکیسواں عظیم الشان قومی کونسل سیشن منعقد کر کے بی ایس او کو ایک بہادر، بےلوث و پختہ قیادت سے نوازا۔

قومی کونسل نے ظریف رند کو چئیرمین منتخب کر کے چنگیزبلوچ کو سیکریٹری جنرل اور اورنگزیب بلوچ کو مرکزی سیکریٹری اطلاعات منتخب کیا جبکہ غلام محمدبلوچ سینئر وائس چئیرمین، سعدیہ بلوچ جونیئر وائس چیرمین، سنگت جیئندبلوچ سینئر جوائنٹ سیکریٹری اور ظفر رند جونیئر جوائنٹ سیکریٹری چنے گئے۔
نومنتخب قیادت کونسل سیشن میں لیئے گئے فیصلہ جات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حکمت عملی و ذمہ داریاں وضع کر رہی تھی کہ تنظیم ایک نئے طوفان کے گھیراو میں لپٹ گئی۔

31نومبر 2018 کا شومئی دن جسمیں مرکزی سینئر جوائنٹ سیکریٹری جیئند بلوچ رات کی تاریکی میں گھر سے اٹھائے گئے اور لاپتہ کر دیئے گئے۔ نئی قیادت کیلئے یہ خبر ایک بہت بڑا جھٹکا تھا جو کسی کی وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مگر بلوچستان کے جنگ زدہ حالات میں کچھ بھی انہونی ہو جانا کبھی خارج از امکان بھی نہیں رہتا۔ انہی مجموعی حالات کی زد میں سنگت جیئند بھی آگئے اور گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
اس غیرآئینی اقدام کے ردعمل میں بی ایس او کے قیادت نے تمام جمہوری اقدار کا پالن کرتے ہوئے جمہوری احتجاج کے تمام طریقے اپنائے اور اپنے ساتھی کی بازیابی کیلئے صدا بلند کرتے رہے۔ مرکزی چیئرمین کی قیادت میں یکم دسمبر 2018 کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قیادت نے جیئند بلوچ کی بیگناہی کی صفائی پیش کرتے ہوئے جبری گمشدگی کی مذمت کی اور انکی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کر کے جبری گمشدگیوں کی شدید مذمت بھی کی گئی۔
قومی و طبقاتی جبر کے خلاف سینہ سپر ساتھی جیئند بلوچ کی جبری گمشدگی پر سینکڑوں سے ہزاروں نوجوانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا اور ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔ اسی ردعمل میں 5 دسمبر 2018 کو ان کے رہائشی محلے سے کوئٹہ پریس کلب تک ایک پرامن احتجاجی ریلی نکال کر طاقت کے ایوانوں تک انکی بازیابی کی فریاد پہنچائی گئی، مگر بجائے حکام بالا کی جانب سے داد رسی کے سنگت جیئند کے دیگر ساتھیوں اور بی ایس او کی مرکزی قیادت کو ہی اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا۔ جس میں مرکزی چئرمین ظریف رند، سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ اور مرکزی اطلاعات اورنگزیب بلوچ شامل تھے۔

بی ایس او پر پے در پے یہ تمام حملے گویا جمہوری سیاست پر کاری ضرب تھے مگر پوری قیادت کی گمشدگی کے باوجود بے لوث ساتھیوں نے حق و سچ کی صدا کو دبنے نا دیا۔ سیکنڈ کیڈر نے انتہائی جرات و بہادری کے ساتھ تنظیم کے جمہوری لائن پر عمل پیرا ہوکر پرامن انداز میں صدائے حق بلند کی اور قیادت کی بازیابی کے لئے پرعزم جدوجہد کیا جوکہ تنظیم کی دیرینہ تربیت و جدوجہد کا واضح ثبوت تھا۔ ایک مہینے کی قید و بند کے بعد تینوں مرکزی رہنما چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور سیکریٹری اطلاعات رہا کر دیئے گئے جبکہ جیئند بلوچ لاپتہ ہی رہے۔

بی ایس او جن جمہوری اقدار کا علمبردار ہے انہی کی پیروی کرتے ہوئے تنظیم کی قیادت نے سنگت جیئند کی بازیابی کیلئے کوششیں بدستور جاری رکھیں اور ہر فورم پر ساتھی کے کیس کو پیش کیا۔ بالآخر آٹھ مہینے کی طویل و دردناک بندش کے بعد سنگت جیئند بلوچ یکم اگست 2019 کو شال سے بازیاب ہوکر گھر پہنچے۔ خبر کی تصدیق ہوتے ہی شال سے لیکر مکران تا کوہ سلیمان و ملک بھر میں جشن کا سما ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر جیئند بلوچ کا چرچہ چھایا رہا اور ان سے واقف ہر شخص خوشی سے مسرور ہوتا رہا۔ یہ فقط کسی قیدی کی رہائی کا پیغام نہیں تھا بلکہ ایک رہبر کی سرخ رو ہو کر لوٹنے کا سوغات تھا۔ وہ رہبر جس نے قوم، رنگ، نسل، مذہب، اور ذات پات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی عظمت و بلندی کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا۔ وہ رہبر نے جس نے بلوچستان کے کوچے کوچے سے لیکر ملتان و لاہور اور کراچی تک طلبہ حقوق کے دفاع میں طلباء کے مظاہروں اور ریلیوں کی قیادت کی۔ وہ رہبر جس نے تمام محکوم اقوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر انکی جدوجہد کو توانا کیا۔ وہ رہبر جس نے ملک و درملک تمام محنت کشوں کی حقوق کی پاسبانی کی۔ وہ رہبر جس نے دنیا بھر سے اٹھنے والے تحریکوں کے ساتھ اپنی طبقاتی جڑت کا پیغام بلند و بانگ بھیجا۔ ایسے رہنما کی بندش ازخود انسانی اقدار کی توہین ہے۔ ان کا پھیلایا گیا فکر و پیغام ناقابل بندش ہے اس لئے انہیں بھی لوٹنا پڑا اور سچ و حق کی فتح کا جشن سبھی فکری ساتھیوں نے ملکر منایا جوکہ نئے عزم و بلندی پر منتج ہوگی۔

بلاشبہ متذکرہ بالا یہ کربناک آٹھ مہینے قطعی طور آسان نہ گذرے۔ یقینا کسی بھی طلبہ تنظیم پر اس سے بدتر کوئی ادوار نہیں آتے مگر تنظیم کی پختہ نظریات و درست حکمت عملی ہے کہ جس کی وجہ سے قیادت و کارکنان لمحے بھر کیلئے بھی اپنے نظریات و جدوجہد سے ذرا نہیں بھڑکے۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ تنظیمیں کسی بڑی بحران کا شکار ہوتی ہیں تو نیست و نابود ہوکر اپنا وجود تک کھو دیتی ہیں مگر بی ایس او کی پوری ٹیم بکھرنے کے بجائے اس دورانیئے میں مزید پختہ و توانا ہوتی گئی۔ مایوسی کے بجائے نئی صف بندی کرنے اور نئے انداز میں ابھرنے کے لائق ہوئی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود طلباء کے درمیان ہمہ وقت موجود رہ کر تنظیم جمہوری و آئینی حقوق کی پاسبانی کرتی آئی ہے۔

بی ایس او کی مرکزی قیادت کے مطابق طوفان کے بہاو میں بہنے کے بجائے مخالف دھارے میں کھڑے ہوکر طلبہ حقوق کی پاسبانی کرنے کا شعوری انتخاب دانستہ طور پر کیا گیا تھا۔ تلخ و تندی کے ادوار جو تنظیم پر گزرے یہ ساتھیوں کو تراش کر حقیقی معنوں میں کندن بنا گئے۔ طوفان کے مخالف دھارے کو سینہ دینے والی قیادت یا تو ریخت و زیرہ زیرہ ہو جاتی ہے یا پھر کندن بن کر صدا کیلئے سرخ رو ہوتی ہے۔ آج ہمیں فخر ہے کہ بی ایس او کی قیادت سرخ رو ہوئی ہے اور ساتھیوں کی طویل بندش اور پھر رہائی تنظیم کے جمہوری روایات پر مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے۔ اس تاریخی آزمائش سے بی ایس او کی تاریخی روایات دوبارہ جوان و تر و تازہ ہوئی ہیں جوکہ پوری قوم کیلئے نیک شگون ہے۔

بلوچستان کی نوجوان نسل کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قومی میراث بی ایس او کو توانا کریں کیونکہ یہی واحد ادارہ ہمارے مجموعی سیاسی جدوجہد کی تاریخی یاداشت ہے جس میں قوم نے کئی بلندیاں بھی دیکھیں اور کوتاہیوں و کمزوریوں کے تجربات بھی اس میں شامل ہیں۔ مستقبل کی درست سمت کا انتخاب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قوم کے پاس ماضی کے تجربات بھی ورثہ میں محفوظ ہوں۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ازخود ایک انقلابی تاریخ ہے۔ اور اس تاریخ کو زندہ و جاوداں رکھنا ہر فرزند بلوچستان کا قومی فرض ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔