انسانی فطرت – زیرک بلوچ

718

انسانی فطرت

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان جب دنیا میں آکر اپنی آنکھیں کهولتا ہے اور اپنے اردگرد مختلف قسم کے جانور و انسان دیکهتا ہے، جنم کے تیس منٹ بعد تک سے لے کر مرنے تک انسان حیرت کدہ سے خود کو باہر نہیں نکال پاتا، یہ حیرت کدہ، یہ دنیا ہی ہے جہاں ہر عمل کے پیچهے کوئی سبب اور اس سبب کے پیچھے علت ہوتی ہے.

جنم کے بعد تک بچہ دیکهتا ہے، سوچتا ہے، وہ اپنے ہونے والے ہر عمل کو بڑے غور سے دیکهنے کی کوشش کرتے رہتا ہے یوں وہ ایک بچہ جو ابهی ابهی اس حیرت کدے میں تشریف فرما ہے اور دیکهتا رہتا ہے، یوں اسے اپنے اردگرد مختلف قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور ان آوازوں کی ردهم میں بچہ اپنی تسکین و خوشی بهی تلاش کرنے لگتا ہے۔ اپنے ابتدائی ارتقائی عمل میں اس انسان کو اپنے اردگرد انسان ہی نظر آتے ہیں، ایک ہی زبان میں بات کرنے والے ایک ہی طرح کے کپڑے پہننے والے لوگ ہی اس کے اردگرد رہتے ہیں یہ فطری عمل ارتقاء میں بہت مفید رہتے ہیں بلکہ یہ کہوں کہ اس فطری عمل کے ہی بناء پر انسان اپنے اردگرد کے چیزوں کو اپنے اردگرد کے لوگوں کو محسوس کرتا ہے ان کو اپنے تجربات میں شمار کرنے کے لئے عمل کرتا اور یوں ایک مقام پر خود کو دوسروں جیسا ہی بناتا ہے۔

یہ ارتقائی عمل اپنے اردگرد تمام حرکات و سکنات کو غور و فکر کرنے سے ہی سمجھ آتی ہے، یہ غور و فکر ہر عمل کے پیچهے ہونے والے اس طاقت کے متوازی طاقت کو جانچنے و پھرکنے اور تمام اعمال کو تجزیاتی تجربوں میں شمار کرتا ہے۔ یہ عمل انسان کا فطری عمل ہے کوئی بهی انسان یہ تمام کام بناء natural process کے سیکھ نہیں پاتا اور ممکن بهی نہیں. انسان ایک مقام پر یہ یقینی طور پر محسوس کرتا ہے کہ وہ بناء زبان, کلچر, تہذیب و تاریخ کے ادھورا و نامکمل سا ہے۔

انسان خود کو اس سماجی و معاشرتی بندهن میں ڈهال لیتا ہے اور اسی خول کے اندر اپنے خوشیاں و غم تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہ کوشش انسان کو انسان بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اس عمل کا یوں چلتے رہنا بڑھتے رہنا انسان کے قومی مزاج کو تشکیل دیتا ہے۔

انسان جب اپنے معاشرے سے نکل کر اپنے ہی زبان کے لوگوں سے ملنے جلنے لگتا ہے تو اسے اپنے اردگرد کی چیزیں اپنی ہی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ انسان similarities تلاش کرنے کی کوشش همہ وقت کرتا رہتا ہے۔ اس کوشش میں انسان خود کو یقینی معنوں میں ایک سماجی جانور ہی تصور کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے، انسان کا سماجی جانور ہونا انسان کے اجتماعی زندگی گذارنے پر قطعی کوئی قدغن نہیں اور نا ہوسکتا کیونکہ انسان اپنے اردگرد کے زبان کو اجتماعی طور پر adopted کرتا ہے، اسی طرح کلچر و تہذیب کو، وہ کہیں بهی انفرادی situation میں خود ڈهال نہیں پاتا کیونکہ یہ انفرادیت اسکے لئے بے معنی سی ہوجاتی ہے۔ وہ خود کو اس اجتماع ہی کا لازم و ملزوم حصہ تصور کرتا ہے اور اسے کرنا بهی چاہیئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان حقیقی تنہائی کے معنوں سے ابهی تک ناواقف ہی ہے اور اسے یہ تنہائی کہیں بهی میسر نہیں ہوسکتا سوائے فریبِ تنہائی کے.

ہمارے آج کے دور کا انسان جہاں تعلیم نظام کو مختلف factors and professionalism میں تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گذارا جارہا ہے، وہاں آج کا انسان انفرادیت کا حامی ہوتا جارہا ہے جب کہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ انسان انفرادی طور پر کچھ بھی نہیں individually we are nothing. هم اس اجتماع کا ہی حصہ ہیں جہاں سے ہمیں data of knowledge ملتا ہے اسی سے هم سیکھتے ہیں سکهاتے ہیں اور عمل کرتے ہیں مگر آج کا المیہ ہے کہ هم ہر قدم پہ خود کو انفرادیت کے دلدل میں پهنساتے جارہے ہیں. جب کہ ہمارا تعلیم حاصل کرنا اور اسے تقویت دینا بهی ایک اجتماعی عمل ہے غلام قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو اس اجتماع کا حصہ تصور کرنے سے کتراتا ہے جہاں سے وہ نکلا ہے اور تعلیمی اداروں کی پسماندہ و تیار کردہ ماحول میں خود کو سقراط تصور کرنے لگتا ہے۔

اسی المیے نے ہمارے انسان ہونے کے اور ہمارے بنیادی حسیات کو دیمک کی طرح چاٹتے جارہا ہے تاکہ ایک دن وہ دم توڑ دے اور اس عمل میں خود کو یقینی طور پر اپنے انفرادی جال میں ہی محدود رکھے، جہاں وہ دیکهنے ,سننے, محسوس کرنے کے حس سے عاری ہوجائے اور هم آج ہوتے جارہے ہیں، اس حقیقت کو شاید ہی کوئی تسلیم کرنے کو تیار ہو پائے کہ آج هم اپنے being کو اسی دلدل میں پهنکنے کے کوشش کررہے ہیں جہاں سے نکلنا یقینی طور پر ناممکن ہے جہاں خود کے اپنے چیزوں کو اپنے لئے ناگزیر تصور کیا جائے اپنے زبان و کلچر کو تاریخ کو لاشعوری طور پر مسخ کرنے کی بے جا کوشش کی جارہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔