گوادر میں کیسکو کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز – گہرام اسلم بلوچ

203

گوادر میں کیسکو کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مکاتب فکر کے لوگ اور عام شہری زندہ رہنے کے لیئے بنیادی شہری ضروریات کے لیئے حاکم وقت حکمرانوں کو گہری نیند سے جگانے کے لیئے اُنکے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ “ بلوچستان میں موجودہ حکمرانوں کو یہ کہنا کہ آپکی طرز حکمرانی سے عوام بے زار ہے، تو کتنا بڑا جرم ہے”” اسی طرح آج بلوچستان کے ایک انتہائی اہمیت کے حامل شہر جسکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنکی جغرافیائی اہمیت کہ وجہ سے Pakistan-China دوستی میں China Pakistan Economy Corridor- CPEC. سی پیک کا مرکز ہے انکے شہریوں کا یہ حال تو سوچیں باقی بلوچستان کا کیا حال ہوگا؟

گوادر کا شہری تو بیچارہ ہر وقت مسائل سے دو چار ہے، کھبی پانی ، کبھی بدامنی اور بے روزگاری و غربت، ماہیگیروں کی حالات زار ہم سب کے سامنے ہے۔ حالیہ مسئلہ چونکہ اسوقت پورے مکران کو درپیش ہے مگر گوادر اس لیے زیادہ میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے کہ اسوقت اسکی اپنی ایک جغرافیائی اہمیت ہے، شاید انکی آواز کو زیادہ وزن سے سُنا جاتا ہے اور میڈیا کے لیے نیوز بنتی ہے۔ اسی سلسلے میں آج گوادر میں آل پارٹیز اور انجمن تاجران کی جانب سے کیسکو حکام کی جانب سے 45,50 سینٹی گریڈ میں طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال کے دوران احتجاج کے دائرے کار کو وسیع کرنے اور کیسکو اور انتظامیہ کی جانب سے مکمل تحریری طور پر معاہدہ نہ ہونے تک، مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ پرامن احتجاج جاری رہے گی۔ اور مزید گرفتاریاں پیش کریں گے۔ اسی دوران نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میر اشرف حسین نے آل پارٹیز اور انجمن تاجران کیساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے اسیر رہنماؤں سے لیویز تھانے میں ملاقات کے دوران انکی اس جدوجہد کو سرہاتے ہوئے کہا کہ گوادر کے عوام کو لاوارث سمجھنے والے، یہ عوامی تحریک انکے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

اسوقت گوادر کا عوامی نمائندہ، عوامی و علاقائی مسائل کے لیئے کہیں بھی نظر نہیں آرہا، جب کے صوبے اور وفاق میں انکی جماعت، منظم نمائندگی کا دعویٰ بھی کرتا نظر آرہا ہے، مگر گوادر کے لیئے ابھی پانی اور بجلی کا مسئلہ تک حل کرنے میں متحرک نظر نہیں آرہا۔

احتجاج کے شرکاء کا ابھی موقف سامنے آیا ہے، انکا کہنا ہے کہ ہم اس احتجاج کو مزید وسعت دیکر جیل بھرؤ تحریک چلائیں گے اور جب تک بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، احتجاج اور شٹرڈاؤن جاری رہے گی۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ عام سا احتجاج ہے تو یہ انکی غلط فہمی ہے کیونکہ سمندری علاقے کی اپنی ایک تاریخ ہے کہ وہ اگر کسی مسئلے کے لیئے نکلتے ہیں تو خلوص و نیک نیتی کیساتھ نکلتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے کئی سال پہلے یاسمین کو بھی اسی عوامی احتجاج کے دوران شہادت نصیب ہوئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔