کیپٹن عاقب کی ہلاکت، اور ثناء بلوچ – حیراف بلوچ

665

کیپٹن عاقب کی ہلاکت، اور ثناء بلوچ

تحریر۔ حیراف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لاپتہ افراد وُ بلوچستان کے درد کو بانٹنے کے نام پہ ووٹ لینے والا ثناء بلوچ اور انکے پارٹی کا بدلتا موقف شاید حیران کن اور پریشان کن ہے۔ ثناء بلوچ نے گُذشتہ دنوں، بی ایل ایف، یعنی بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایک جهڑپ میں ہلاک ہونے والے کیپٹن عاقب اور اسکے ساتهیوں کو شہید، اور گلزمین کے رکهوالوں کو دہشتگرد جیسے القابات سے نوازا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سماجی رابطے کے سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک ٹوئیٹ میں کیا۔

سمجھ یہ نہیں آتا کہ اگر آپ انہیں دہشتگرد سمجھتے ہیں، تو آپ نے اُن شہیدوں کے نام پہ ووٹ کیوں لیا؟ یا آپکے پارٹی سربراه پارلیمنٹ میں اُن شُہداء کا نام بڑے فخر سے لیتے کیوں نظر آتے ہیں اور انکی قربانیوں کو خود سے منصوب کرانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ آخر آپکی حتمی رائے کیوں نظر نہیں آتی بلوچستان کے اس مسئلے پہ؟

جب آپ حکومت میں نہیں ہوتے تهے، تب آپ ایک آزادی پسند نظر آتے، حکومت کے حصے ہوتے تو آزادی کی جنگ ہی کو دہشتگردی قرار دے دیا، آپکے اپنے ہی ٹوئیٹر پر آپ نے خود کئی بار یہ خواہش بهی ظاهر کی ہے کہ کاش میں آزاد بلوچستان میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے پیدا ہوتا۔

اگر واقعی آپکے وه خواہشات بهی سچے تهے تو اُس وقت آپکا کردار کیا رہا؟ بقول آپکے کہ آپ نے ایک افریقی ملک صومالیہ کی قانون سازی اور آئین سازی میں اقوام متحده کی طرف سے ایک سینئیر ایڈوائیزر کے حیثیت سے بهی کام کیا ہے اور اُس وقت شاید آپ نے خود ساختہ جلاوطنی بهی اختیار کیا ہوا تها۔

آپ اپنے اُس وقت کے ایک لفظ کو مینشن کریں کہ آپ نے اپنے ملک، اپنے وطن بلوچستان کی آزادی کے حق میں کوئی بات اقوامِ متحده کے سامنے رکهی ہو؟ آزادی کو چهوڑیں، ماورائے عدالت قتل و غارت کے بارے کچھ کہا ہو؟ جو گُذشتہ دو دہائیوں سے اپنے عروج پہ دکهائی دیتی ہے، میرے خیال میں نہیں کیونکہ آپ تو اُس وقت پاکستان واپس آنے کی راه ہموار کررہے تهے۔

آپ اور آپکی پارٹی شروع ہی دن سے بلوچ قوم کے موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں، آزادی کی جنگ لڑنے والے جیالے بلوچ قوم ہی سے تعلق رکهتے ہیں. یہ بات یورپ کے پالیمنٹرینز کو سمجھ آتی ہے، مگر آپ ہے کے آنکھ بند کرکے کانوں میں روئیاں ڈال کے بیٹھے ہیں، بس منہ ہے کہ بولتے نہیں تھکتا۔

آپ خود کو بڑا سیاسی چمپئین سمجھتے ہیں، مگر اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پا رہے یا سمجھنا نہیں چاہ رہے یا سمجھکر خود کو اور قوم کو دهوکہ دے رہے ہیں کہ ہماری سرزمین پہ آکر ہمیں مارنے والے شہید کیسے اور مزاحمت کرنے والے سرمچار دہشتگرد کیسے؟ دُنیا میں ایک ہی ایسا مُلک ہے جو اس جنگ کو دہشتگردی قرار دے رہا ہے، اور وه ہے پاکستان جس کے خلاف یہ جنگ لڑی جارہی ہے.

سوال یہ بنتا ہے کہ آپ کس طرف کهڑے ہیں مظلوم کی طرف یا ظالم کی؟ آپکا موقف تو حرف بہ حرف پاکستان کے موقف سے میل کهاتی ہے، ہمیں آپ سے کوئی گِلہ نہ ہوتا اگر آپ بهی سڑکیں اور نالیاں بنانے کی خاطر حکومت میں آتے یا اُن مُدوں پہ سیاست کرتے.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔