سیدھی راہ – زہیر بلوچ

401

سیدھی راہ

زہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قومی تحریک پچھلے کئی سالوں سے کافی مشکل حالات کا سامنا کر رہا تھا یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ کر رہا ہے کیونکہ دشمن کی جبر و طاقت کا مظاہرہ سامراجی ریاستوں کا بلوچستان میں گٹھ جوڑ اور بلوچستان میں جاری وحشت میں تیزی جبکہ سی پیک کی حفاظت کیلئے لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی فوجیوں کا بلوچستان آمد، جہاں سیاسی اسپیس تو اب ختم ہی ہو چکا ہے لیکن اس دورانیہ میں کچھ مخصوص افراد جو تحریک سے جڑے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی تحریک میں مزید مشکلات کا سامنا کرنے کا سبب بنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قوم کے دل میں ان کی وجہ سے قومی لیڈروں اور تنظیموں کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے اور ان ہی کی بیوقوفانہ اور جاہلانہ کارکردگی اور اعمال کی وجہ سے تحریک سے جڑی ایک بڑی ہمدرد تعداد کم ہو گئی کیونکہ شاید ہم ایک دوسرے کو ایک دوسرا کا نہ سمجھیں لیکن قوم پورا ہمیں ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔

انہی کی بیوقوفانہ حرکتوں سے راستوں میں بہت سی رکاوٹیں کھڑے ہو گئے، اتحاد جو بنیاد سے سب سے بڑا ایشو رہا ہے وہ مزید الجھنے لگا، کچھ مخصوص لوگ جو بلوچستان اور جنگ سے میلوں دور رہ رہے تھے ان کی خواہش تھی کہ سب ہمارے مطابق چلے، ہم جو کہیں وہی ہو اور یہی وجہ ہے کہ تحریک اور ساتھوں کو سیدھا راستہ نہیں ملا۔ قوم کے اندر ہلچل مچ گئی، ایک جانب دشمن تھا جو آئے دن گاؤوں کے گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹاتا جا رہا تھا، سرمچاروں کو پہاڑوں کے اندر ہی محدود کرنے کی کوشش کر رہا تھا، سیاسی جہد کاروں کو اٹھانا لاپتہ کرنا قتل کرنا تاکہ کوئی بھی آزادی کی بات نہ کرے، تو دوسری جانب ان سخت حالات کا مقابلہ کرنے والے سرمچار وطن کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے دھرتی پر قربان ہونے والوں کے خلاف یورپ اور بلوچستان سے دور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک سازش کے تحت پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔

اس سے قوم کافی الجھن میں پڑ گیا، ظلم اور جبر تھی، ریاستی قتل و غارت تھا اور ان کا مقابلہ کرنے والے سرمچار بلوچ وطن اور دھرتی پر فدا ہونے والے لیکن دوسری جانب تحریک کے نام نہاد مخلص کارکن جھوٹ اور بے بنیاد الزام سے دوستوں اور قومی پارٹیوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے تھے، یہ سلسلہ ایک طرف چل ہی رہا تھا کہ انہی مخصوص افراد نے پھر کچھ اور دوستوں کے خلاف محاز کھول دیا، اسی طرح ان سب کے خلاف محاز کھولتے ہی جا رہے تھے لیکن اب تحریک چونکہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں آچکا تھا، جہاں ہر ادارے میں پڑھے لکھے لوگوں کی کثیر تعداد شامل ہو گیا تھا، اس لیئے دوستوں نے چیزوں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

سب سے پہلا کام، بی ایل ایف اور بی ایل اے کا اتحاد تھا، یہ بہت اہمیت اس لیئے رکھتا تھا کہ یہی دو تنظیمیں بلوچستان میں مزاحمت کی سب سے بڑی تنظیمیں ہیں۔ قوم کی امیدیں بھی انہی سے وابستہ ہیں۔ شہید استاد اسلم بلوچ نے حالات کو سمجھ کر مزید الجھنے کے بجائے اتحاد کو ترجیح دیا۔ قوم کو اُس وقت راحت کا چین ملا جب براس کا قیام عمل میں لایا گیا براس کا قیام عمل میں آنا تحریک کیلئے ناگزیر تھا۔ جب بلوچستان میں موجود تحریکی قیادت ایک ہوئی اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا شروع ہوئے، تو اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ براس کے قیام کے بعد اب بلوچ قوم کے اندر اُس جذبے کو واپس زندہ کرنا تھا، جو کچھ وقتوں کیلئے ٹھنڈا پڑ گیا تھا کیونکہ اس دورانیہ میں کچھ اپنی غلطیاں، کچھ سب کی غلطیاں، طلباء تنظیم سے سیاسی پارٹی اور مسلح تنظیموں سے بھی چھوٹی غلطیاں ہوئی تھیں، جس سے ایک مایوسانہ ماحول جنم لے چکا تھا تو اس کو ختم کرنے کیلئے قوم کو یہ باور کرانا تھا کہ دھرتی پر مرنے والے ساتھیوں کی کمی نہیں۔

بلوچستان میں اُس جذبے کو زندہ رکھنے کیلئے کچھ عظیم قربانیاں دینے کی ضرورت تھی، اس کا آغاز بھی شہید جنرل اسلم بلوچ کی جانب سے ہوا یہ پہلا واقع تھا کہ ایک لیڈر نے اپنے جوانسال بیٹے کو دھرتی پر قربان کر دیا اور اس عمل میں شہید جنرل اسلم بلوچ کو لمہِ وطن شہید ریحان کی ماں اور شہید اسلم کی شریک حیات بی بی یاسمین نے بھرپور ساتھ دیا، اس عمل سے وہ مایوسی پھر سے ختم ہونے لگی، پھر لوگوں میں جوش و جذبہ ابھرنے لگا، قوم دوستی کا جذبہ جو کئی وقت تک دب چکا تھا اس کا عملی مظاہرہ ہمیں گھار سیما کی جانب سے کی گئی احتجاج میں دیکھائی دیا۔

کراچی میں کونصلیٹ خانے پر بلوچ نوجوانوں کا فدائی حملہ عظیم کارنامہ تھا، اس کو بھی سرانجام دینے والے بلوچ لبریشن آرمی کا مجید بریگیڈ تھا۔ جہاں شہید رازق جان، شہید ازل جان اور شہید وسیم جان نے بہادری، عظمت اور جنگی حکمت عملیوں سے دشمن کو شکست فاش دیا۔ قابض فوج کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ بلوچ نوجوان اتنی بڑی تباہی کراچی میں مچا سکتے ہیں۔ اس عمل سے جس جذبے کی ضرورت تھی، وہ یہیں سے قوم کو مل گیا۔ پھر شہید استاد اسلم کی شہادت ایک سانحے سے کم نہیں تھا لیکن اس سانحے کے بعد جس بہادری، عظمت، ہمت کا مظاہرہ لمہ وطن اماں یاسمین نے کیا، اس کی نظیر تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتا۔ اپنے خاوند کی شہادت پر قوم کو مبارک دی اور اس کے فلسفے کو کامیابی کی طرف لے جانے کی درخواست کی۔

اسی دوران براس کی جنگی کارروائیاں اور گراؤنڈ پر دیگر سیاسی تحریکوں نے بہت سے تبدیلیاں لائیں اور ان سب سے بڑھ کر گوادر کا تاریخی حملہ ہے، گوادر پر بلوچ فدائیوں کا حملہ واقعی میں بیان سے آگے گمان سے باہر تھا۔ حملے میں بی آر اے اور بی ایل ایف کا سپورٹ بھی اپنے آپ میں ایک تاریخی عمل ہے۔ ان فدائیوں نے دشمن کے خواب تو چکنا چور کر دیئے لیکن جو جوش اور جذبہ قوم کو دیا، وہ شاید تاریخ میں اکبر بگٹی اور غلام محمد کے بعد کسی بھی شہادت میں نہیں آیا ہے۔ اس عظیم عمل کو سرانجام دینے والے بلوچ دھرتی کے عظیم سپوت شہید کچکول، شہید اسد جان، شہید حمل جان اور شہید منصب جان تھے۔ اب ایک بار پھر قوم پرجوش ہے پرامید ہے پھر سے جذبے میں ہے، وطن پر مرنے اور جان لٹانے کی آرزو پھر سے قوم کے نوجوانوں میں پنپ چکی ہے، ہر نوجوان دل میں فدائی بننے کی خواہش رکھتا ہے۔

اس پورے دورانیئے میں گراؤنڈ سے باہر کچھ مخصوص افراد کا رویہ وہی رہا جو پہلے تھا، کچھ نادانی سے تو کچھ شعوری طور پر وہی غلطیاں سر انجام دے رہے تھے، جس سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن اس مرتبہ چونکہ اب راہ سیدھی ہو گئی ہے، اس لیئے ان کی جھوٹے پروپیگنڈے کو وسعت نہیں ملا، قوم پہلے سے ہی ایسے رویوں کو مسترد کر چکا تھا، اس لیئے ان کو کسی بھی طرح کا رسپونس نہیں ملا کیونکہ ان کا جھوٹا پروپیگنڈہ انہی کے خلاف تھا جو میدان جنگ میں خون بہا رہے ہیں اور وہ خود عیش و عشرت کی زندگی میں مگن ہیں۔ قوم کی جانب سے اپنے آپ کو مسترد دیکھ کر کچھ خاموش ہو گئے تو کچھ آج بھی آہستہ آہستہ کنفیوژن پیدا کرنے کی تگ و دو میں ہیں لیکن اب سب چیزیں صاف ہو گئے ہیں، جن تنظیموں اور لیڈران سمیت کارکنان سے قوم کی امیدیں وابستہ تھیں یعنی جو گراؤنڈ میں تھے وہ سب ایک طرف آ گئے، مسلح تنظیموں سے لیکر سیاسی سنگتوں تک سب ایک ہی مورچے میں جدوجہد کرنے لگے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اب راہ صاف ہے، بلوچ مسلح تنظیموں کو بلوچستان لبریشن آرمی کی مجید برگیڈ کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے چونکہ بی ایل اے ایسی کارروائی سرانجام دے رہی ہے، اس لیئے ایسے یونٹ کی دوسرے تنظیموں میں اب ضرورت نہیں ہے۔ بی ایل ایف کو بی ایل اے کے اس یونٹ کو مضبوط بنانے میں اپنا مکمل کردار ادا کرنا چاہیئے، گوادر حملے میں جس طرح بی ایل ایف نے بی ایل اے کا ساتھ دیا تھا، اسی طرح ہر حملے میں اسی طرح مدد و کمک کریں جبکہ بی ایل اے کو کوئٹہ، قلات بیلٹ میں بی ایل ایف کو بحال کرانے میں کردار ادا کرنا چاہیئے۔ چھوٹی گوریلا کارروائیاں بی ایل ایف کے سرمچاروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سرانجام دی جاتی ہیں تاکہ دشمن ہمیشہ خوف میں رہے جبکہ براس کی شکل میں قابض فوج پر بھیانک حملے کرنی چاہیئے۔ ایسے ہی حملے جیسے اورماڑہ اور تگران میں ہوئے، اسی طرح بی این ایم کو ایک قومی سطح کی ماس پارٹی بنانے میں سب تنظیمیں اپنا کردار ادا کریں اور نوجوانوں کی تربیت کیلئے بی ایس او آزاد جیسا مضبوط ادارہ پہلے سے ہی موجود ہے جنہوں نے ان سخت حالات کا مقابلے کرتے ہوئے بھی قومی آزادی کے شعور کو پھیلانے کی جدوجہد جاری رکھی ہے۔

اس کے ساتھ بی آر اے بیبگر کو بھی براس کا حصہ بنانا چاہیئے کہ ان دوستوں کو بی ایل اے یا بی ایل ایف میں ضم ہونا چاہیئے تاکہ اس مسئلے کو آگے جاکر حل کیا جا سکے، جبکہ یو بی اے اور لشکر بلوچستان کی قیادت سے حال احوال کرتے ہوئے انہیں براس کا حصہ بنانے کی کوشش کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ اب قوم اور سیاسی کارکنان و جہدکار مزید غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ عمل کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں، چیزیں صاف ہیں بس ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، دوستوں کی اتنی قربانیاں اور شہادتیں ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔

تیسری جانب وہ لوگ جو جنگ سے دور ہیں، جنہوں نے سخت حالات کا کبھی مقابلہ نہیں کیا، جن کا کردار ہمیشہ چیزوں کو مشکوک بنانے کی کوشش رہا ہے، جن کی کوشش ہمیشہ تحریک میں حکمرانی رہا ہے، ان کو ان کے حالت پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ یہ کبھی جہد کاروں کے مصیبتوں کا ادراک نہیں کر سکتے، ان کے خیال میں عیش و عشرت کی زندگی گذارتے مخلص بس ہم ہیں اور جو بخوشی وطن پر جان نچھاور کر رہے ہیں، جو ان پہاڑوں میں گرمی، سردی، بھوک و افلاس کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سب قوم دشمن ہیں اب ان کو اتحاد کیلئے مزید منت و سماجت کرنا میں سمجھتا ہوں ہمارے لیئے نقصاندہ ہوگا، اگر ان کا سدھرنا ہوتا تو کب کے سدھرتے اور جو تحریک میں فرد واحد کی حکمرانی چاہتا ہے، وہ کبھی بھی اجتماعی حوالے سے تحریک کیلئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا، جب انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگا، جب ان کا اپنے کیئے گئے جرم کا احساس ہوگا، جب ان کے دل سے قومی تحریک پر فرد واحد کی حکمرانی کا خواب اتر جائے گا اور تنظیموں سمیت قوم سے معافی مانگیں گے، انہیں ساتھ ملانا چاہیئے لیکن اب چونکہ سب کچھ صاف ہے، اس دورانیہ میں مزید ان کو منت و سماجت کرنا، اس کو ویلیو دینا مزید نقصاندہ ہوگا۔ جبکہ دوسری جانب براہمداغ بگٹی سے رابطہ کرکے ان کو اپنے ساتھ ملانا چاہیئے اور ان سے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنا چاہیئے۔

اب اگر ہم نے کوئی غلطی کی، اپنے غلطیوں کو دہرایا، بچگانہ حرکتوں پر پھر اتر آئے تو میں سمجھتا ہوں قوم کے سب سے بڑے دشمن ہم ہونگے اور جو جذبہ اور جوش ساتھیوں نے اپنا لہو دے کر اپنی زندگی دے کر پیدا کی ہے، وہ بھی ہمارے غیر سنجیدہ اعمال سے جا سکتا ہے، اب مزید غلطی کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے، کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔