راسکوہ کا گڈریا ۔ زبیر بلوچ

211

راسکوہ کا گڈریا

تحریر۔ زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب تکبیر کا کوئی یوم نہ ہوتا تھا، تو ہم گڈریے تروتازہ پھولوں کی کونپلیں چن کر انھیں راسکوہ کے آنگن میں نچھاور کرتے۔ پھر دن بھر درختوں کے بانہوں میں بانہیں ڈال کر جگمگاتے شکستہ سورج کے ڈھلنے تک یہی آنکھ مچولی کھیلتے۔ جب سورج تھک کر ڈھلنے کے لیئے رخت سفر باندھ لیتی تو ٹمٹمھاتے تاروں کی چھاؤں میں الاؤ جلا کر سبھی خانہ بدوش پہوال کمر کے گرد چادر کس کر بیھٹتے کہ سورج دیوتا کی غصیلی کرنیں بیدار کرتیں۔

ہم گڈریے لوگ بکریوں سے کھیلنے والے، کتوں،چوپاوں سے دوستی کرنے والے آدم ذاد ہیں۔ ابھی سورج نکلتی نہیں کہ ہم اٹھتے اپنے بکریوں کے بچوں کو باڑے سے نکال کر دودھ پلاتے، پھر پہاڈوں کے اندر وادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ دن بھر وہاں چٹانوں ،وادیوں ،چشموں ، جوہڑوں سے باتیں کرتے، زہیروک الہان کرتے اور گنگاتے رہتے۔
گڈریے اور کیا کرتے ۔۔۔
گڈریے بکریاں ہانکتے ۔۔۔۔
ہہو ۔۔۔۔۔۔ہہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی ٹو ۔۔۔۔۔ٹی ٹو۔۔۔۔۔۔۔ہہو ۔۔۔۔ہہو۔۔

بچے!
راسکوہ کو کوئی نہیں جانتا، جب ہم بلوچ پہوال، خانہ بدوشوں کا بسیرا تھا، ہمارے گھروندے اور گدانوں میں امن، پیار ،محبت کا اکٹھ تھا۔ جب بادل بشام کے موسم میں لوریاں سناتے تو راسکوہ کی انکھیں بچھڑے گڈریوں، شپانکوں اور پہاڑی عقابوں کے فراق میں نمناک ہوتیں۔ تبھی ہم سمجھ لیتے یہ رشتہ پیار کا رشتہ بہت نازک اور حسین رشتہ ہوتا ہے۔ انھی برستی آنکھوں اور نمناک پپوٹوں کے ساتھ محو خواب ہوتے۔

راسکوہ ایک ماں ہے جو کھبی بھی اپنے بچوں کو برہنہ پا اور ننگا بدن نہیں دیکھ سکتا، کھبی سفاک اور دہشت کے منہ میں ان کو دیکھتا تو خود ہاتھ میں شمشیر لے کر جنگ میں کودتا، دشمنوں سے لڑتا۔ یہ ایک ایسی ماں ہے، اس ماں کے ہم سبھی خانہ بدوش ،پہوال بلوچ بچے کسی خدائی قانون کے اہل ایمان نہ تھے، یہاں خداوں کا کوئی قانوں اور صحائف کانزول نہ ہوتا تھا، نہ کوئی حاجی، نہ نمازی، نہ حامی، نہ میاں۔

پھر کیا ہوا ابو؟ بچہ یوں کہ ایک رات جب میں تیری امی کے پہلو میں تمھیں خوابوں میں بن رہا تھا، تیری امی بھی بڑی شوخ نظروں سے ستاروں کو تک رہی تھی۔ پھر ہم دونوں شیطان کو ماری کنکر کے کھنچھی لکیر کو دیر تک تک رہے تھے کہ مبارک کا چیخ نکلا۔ ہم دونوں میں اور تیری امی دہشت، وحشت، سراسمیگی کے عالم میں خود پر طاری کپکی کو سنھبالنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ ابھی کپکی سنبھلی نہیں گئی تھی کہ مبارک پھر چیخا۔
“اٹھ شیرو، بہرے”
پہلے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ مبارک اتنی رات کیا کرنے آیا ہے ۔وہ مٹی کی مورت بنے مرے سامنے کھڑا تھا۔
“چل شیرو۔۔۔۔”
اس کے منہ سے بڑی مشکلوں بعد یہ بات نکلا “کچھ مسلح لوگوں نے ہمارے گدانوں پر ہلہ بولا ہے کہ تم سبھی پہوال، خانہ بدوش،صبح ہونے سے پہلے کوچ کر جاؤ، وگرنہ۔۔۔۔۔”

اتنا وہ بولا کہ دور سے کسی کے کھانسنے کی آواز آئی۔ وہ کھانستا ہوا ہمارے گدان کے قریب آیا، جہاں مبارک کھڑا تھا۔ اس نے آتے ہی مبارک کو گلے سے پکڑا “بینچود، تیری ماں کو میں اٹھا کر چلوں ۔۔۔۔رنڈی کے۔۔۔۔۔ حرام زادے تم سوکھ گئے ہو کیا، جو اب تک ان کو ہانک کر نہیں لے گئے۔”

یہ سپاہی حکومت کا سپاہی تھا، جو ہم سے ہماری صدیوں پرانی راجدہانی چھیننے آیا تھا۔ جہاں ہماری پرکھوں کی قبریں تھیں اور بچپن کے بیشمار یادوں کا گلدستہ۔ اس بندوق بردار سپاہی کے سامنے ہمارے ہاتھ میں بکریوں کو ہانکنے والا بس عصا تھا۔

پھر کیا ہوا ابو؟ پھر ہم اپنے دفن پرکھوں کو ،ہزاروں یادوں کو ،ان تمام کلیوں کے کونپلوں کو جو بشام کے موسم میں کھلتے تھے، انھیں راسکوہ کے آنگن میں بیکھرتے تھے۔ ان سب کو پو پھٹنے سے پہلے چھوڑ کر نکل ائے، اور بکریاں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بکریاں ادھر خدا کے کسی مخلوق کو امانت چھوڑ آئے۔

اور پھر؟ بہت دنوں بعد میں، مبارک اور تیری امی کسی کاروان کے ساتھ وہاں جارہے تھے، تو میں نے سوچا کہ چلو تھوڑی دیر میں راسکوہ ماتا کا درشن کر لوں۔ اس کے نرم و نازک بدن کو چھو کر آؤں اس کے چرنوں میں پڑ کر اپنے لغوری کی معافی مانگوں۔ جبین رگڑ کر اس کو مناوں، ۔لیکن تیری امئ اور مبارک نہیں مانے۔

کالا منہ لے کر محبت کی یہ عظیم داستان، جو اب بالکل روٹھ چکی ہے، مجال یے کسی بے وفا اور اس سے زیادہ کسی لغور کو اپنے مقدس پیروں کو چھونے دے۔

ابو لغور کیسے؟ بچہ جب مسلح لوگ رات کی تاریکی میں آئے کہ سبھی پہوال ،بلوچ اور خانہ بدوش پہاڑی چھوڑ کر طلوع آفتاب سے پہلے نکل جائیں۔ تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ صدیوں سے قائم اپنے راجدہانی کو کسی اجنبی سپاہی کے بندوق کے خوف سے خالی نہ کرتے، جو ان راہوں سے انجان تھا۔ اس کو کیا معلوم کہ ان جنگلی مارخورں، ہرنیوں اور نرم و نازک ہواوں کی بولی کیا ہوتی ہے۔ یہ کیسے اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کا ماتم کرتے، انھیں کیا معلوم کہ پہاڑی، تیتروں، چکوروں، عقابوں، پرندوں کا بہاروں کے موسم میں گیت کیا ہوتی ہے۔ انھیں تو ان گھاٹیوں پر چڑھنے کا ہنر تک نہیں آتا، یہ ہمارے چشموں کے پانیوں کو ناپاک کرتے ہیں۔

ان کی آنکھیں ہمارے درختوں کے ٹہنیوں کو بڑی گندی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بڑے بوٹ ہماری ماتا کے نرم و نازک چھاتی کو چیر کر ان کے معصوم بدن کو خون الود کرتے ہیں۔ ہماری مٹی جس کی خوشبو کسی بارش کے موسم میں سونگھ کے دیکھو، ان چٹیل میدانوں اور چٹانوں کے کچھ حقوق تھے، ہم پر جو صدیوں سے ہم کو اپنے سینے میں لگائے رکھتے تھے ۔ہم سے وفاداری اور محبت کے سیندور اپنے ماتھے پر ٹیکتے تھے، ہم محبت کے اس نشانی کی مانگ نہ رکھ پائے۔

یہ چٹیل میدان اور گھنیرے جنگلوں کی نظریں ہماری محرومیوں کے ننگے بدن پر پڑتی تو وہ مارے شرم و حیا، چٹانوں کے اوٹ میں چھپتے پر نگاہیں نہ اٹھاتے۔ اب بھلا یہ اجنبی کیونکر ایسا کریں؟

جب رات ہوتی تو ہم سبھی ایک پریوار کی طرح رات بھر اگ کے گرد بیٹھتے، کھبی کسی بوڑھے درخت سے جنوں کی کہانی سنتے، کھبی پہاڑی مارخوروں، ہرنیوں، مینڈھوں سے جنگل کے قانوں کے، رویوں کے مطالعے کرتے اور قصے کہانیاں سنتے، پری دیو کی خطرناک کہانیاں، سیمرغ اور اس کے بچوں کی کہانی، بادشاہ کے چالاک وزیر کا قصہ، دادی گنج ھاتون کے حصے آتی۔

تمھاری امی کو تو بس حسن سوداگر کا قصہ حفظ ہوتی۔ ایسے خوبصورت پریوار، ایسے مقدس رشتے، ایسے محبتوں کے بندھن، ہم صرف ایک مسلح سپاہی کے چیخ کے آگے رکھ آئے، تمھاری امی اب بھی کہتی ہے۔ شیرو اگر اس رات تو میرا کہا مانتا، جب وہ سپاہی ہمیں اپنے صدیوں سے قائم رجدہانی خالی کرنے آئے تھے تو ہم اپنے سبھی پریوار کو اکھٹا کرکے مر مٹتے۔ اسی پہاڑی کی چوٹی پر، جہاں تمہارے دادا اور مبارک کے ابو کے قبریں ہیں۔ ہم بھی اسی چوٹی پر کسی ٹیلے پر اکھٹے سو جاتے ۔کوئی راہگیر فخر سے ہماری ٹیلوں پر آتا مزاحمت کا، محبت کا، غیرت کا، منت مانگتا۔

لیکن بچے! تمھاری امی کی میں نے ایک نہ مانی، اسی رات جب سپاہی مبارک کو ننگی گالی بک رہا تھا، اسی رات جب میں تیری امی کے پہلو میں تمھیں خوابوں میں بن رہا تھا۔ اسی رات وہی کیا جو ایک نکما، کاہل، بزدل اور ڈرپوک کرتا ہے۔

اب کے بار جب میں تیری امی اور مبارک کے کاروان کے ساتھ نئی منزلوں کی تلاش میں نکل رہے تھے، تو میں نے راسکوہ کے دامن میں گرم تپتی ریگستانوں کے سوا کچھ نہ دیکھا، جہاں ہم صدیوں سے بسیرا کررہے تھے۔ جہاں لمبے درختوں کی قطاریں تھیں، وہاں صحرا کے اونچی فصیلیں تھیں، جنکے سامنے مسلح سپاہی قطاریں باندھے بیٹھے تھے۔

آس پاس دور تک نظریں گھمائیں، جہاں یخ بستہ ہواؤں کی گذرگاہیں تھیں، گھنیرے سیاہ جنگل اور پریوں کا مسکن تھا، جہاں وہ پھولوں کے بوسے لیتے تھے۔ جل کر راکھ کی صورت اڑ رہے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔