ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقجی نےایک بیان میں کہا کہ تہران، افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ اگر ملک پر اقتصادی دبائو مزید بڑھتا ہے توہم افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکال باہر کریں گے۔
ایران سے نشریات پیش کرنے والے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں عباس عراقجی کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں اور اقتصادی دبائو کے بعد ہم لاکھوں افغان تارکین وطن کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم ان سے ملک چھوڑنے کا کہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایران میں تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین آباد ہیں۔ ان میں سے 10 لاکھ کام کاج اور کاروبار کرتے ہیں۔ ایران میں افغان مہاجرین کے طلباء کی تعداد 4 لاکھ 68 ہزار ہے جو ایرانی تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر طالب علم پر ایران سالانہ اوسطا 600 یورو کے مساوی رقم صرف کرتا ہے جب کہ ایرانی جامعات میں زیر تعلیم افغان طلباء کی تعداد 23 ہزارہے اور تہران کو ان میں سے ہر ایک کے لیے سالانہ 15 ہزار یورو خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ نے تسلیم کیا کہ امریکی پابندیوں کے بعد ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت صفر ہو گئی ہیں۔ ایسے میں اسلامی جمہوریہ ایران اپنی اقتصادی پالیسی میں ضروری تبدیلی کرے گا۔ ہم افغان مہاجرین کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکیں گے اور انہیں واپس جانے کے لیے کہیں گے۔
افغانستان کا ردعمل
دوسری جانب افغان حکومت نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’نا مناسب‘ قرار دیا ہے۔
افغان حکومت کے مشیر محمد موسیٰ رحیمی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ‘فیس بک’ پر جاری ایک بیان میں کہا ’’کہ ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقجی کا بیان ایران کے متنازع اور متضاد طرز عمل کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ایران ایک طرف اسلام کی تعلیمات کی سختی سے پابندی کا دعویٰ کرتا ہے مگر دوسری طرف انسانی بنیادوں پر افغآن پناہ گزینوں کی مدد سے فرار اختیار کر کے اسلامی تعلیمات کی بھی نفی کر رہا ہے۔
افغان مہاجرین کی بیدخلی کے حوالے سے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب حال ہی میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے کی بعض شرائط سے علاحدگی اختیار کر رہا ہے۔