ناروے کی شہریت یافتہ احسان ارجمندی کی بازیابی کیلئے عالمی ادارے اپنا کردار ادا کریں – وی بی ایم پی

688

جب تک لاپتہ افراد کے لواحقین خود سامنے نہیں آئینگے لاپتہ افراد کا کیس مضبوط نہیں ہوگا – نصراللہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج جاری ہے جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج میں شرکت کرکے وی بی ایم پی کے پاس اپنے پیاروں کے حوالے سے کوائف جمع کرارہے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں بلوچستان سے دس سال قبل جبری طور پر لاپتہ ہونے والے ناروے کی شہریت یافتہ احسان ارجمنڈی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ احسان ارجمندی کو 7 اگست 2009 کو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے اوتھل سے زیرو پوائنٹ کے مقام پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن کی جبری گمشدگی کو دس سال کا عرصہ مکمل ہونیوالے ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ احسان ارجمندی بنیادی طور تعلق ایران سے ہے لیکن وہ ناروے کی شہریت یافتہ ہے جبکہ انہیں بلوچستان اس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آیا ہوا تھا۔

ماما قدیر نے اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے احسان ارجمندی کی بازیابی کیلئے کردار ادا کرنے کی گزارش کی ہے، اس کے علاوہ ناروے کی حکومت سے اپنے شہری کی بازیابی کیلئے پاکستان پر دباو ڈالنے کا کی گزارش کی ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق تربت سے 20 ستمبر 2014 کو لاپتہ کیئے گئے محمد رفیق ولد حاصل خان، 12 مئی 2014 کو اسپلنجی سے لاپتہ کیئے گئے امداد اللہ ولد محمد حنیف اور 13 ستمبر 2017 کو قلات کے علاقے منگچر سے سے لاپتہ کیئے گئے نصیر خان ولد عبدالکریم کے حوالے سے کوائف تنظیم نے حکومت کے پاس جمع کرادیئے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کہنا تھا کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونیوالے 260 افراد کے مکمل کوائف تنظیم نے حکومت کے پاس جمع کیئے ہیں جبکہ ہمارے فہرست کے مطابق اس وقت تک 19 کے قریب افراد بازیاب ہوچکے ہیں جو کئی سالوں سے لاپتہ تھے۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ بازیاب ہونیوالے افراد کے باعث دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین پر امید ہے اور وہ تنظیم سے رابطہ کررہے ہیں جبکہ پچاس کے قریب لواحقین جن میں بوڑھے والدین شامل ہے مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومتی عہدیداران ان سے ملاقات کرے تاکہ وہ اپنی فریاد ان تک پہنچا سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک لاپتہ افراد کے لواحقین خود سامنے نہیں آئینگے لاپتہ افراد کا کیس مضبوط نہیں ہوگا اور ملکی اداروں سمیت بین الاقوامی ادارے بھی ہماری طرف توجہ نہیں دینگے لہٰذا لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے حوالے سے کوائف جمع کرے تاکہ تنظیم ان کا کیس آگے لیجاسکے۔