جنرل گیاب سے جنرل اسلم بلوچ تک ۔ میرک بلوچ

332

جنرل گیاب سے جنرل اسلم بلوچ تک

تحریر۔ میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تاریخ عظیم الشان انسانوں کی عظیم الشان کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ہمارا یہ سیارہ کبھی بانجھ نہیں ہوا، اس نے قابل فخر سپوت پیدا کئے۔ جنہوں نے اپنی نفی کرکے انسانیت کو راحت، مساوات ،امن و آشتی دی۔ غربت و افلاس سے نکال کر عظیم بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان عظیم الشان انسانوں نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی جدوجہد کو ساری دنیا نے خراج تحسین و نظرانہ عقیدت پیش کی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان کی قربانیوں اور کارناموں کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔ جو انسان اپنی نفی کرے وہی انسان ہی انسانیت کو بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ ورنہ خود غرض بونے لوگوں کی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد کوئی کیونکر یاد کرے اور عزت دے جو اپنے لئے جیتے ہیں، وہ انسان تو کیا جانور کہلانے کے بھی لائق نہیں ہوتے۔

1960ء کی دھائی میں ہندی چینی میں ایک ایسا ہی عظیم الشان انسان ابھرا جسے ساری دنیا جنرل گیاب کے نام سے جانتی ہے۔ جنرل گیاب نے بلند شعور کے ساتھ انتہائی تدبر و دانائی سے گوریلہ دستوں کو منظم کرکے باقاعدہ فوج کی شکل دیکر دنیا کی سب سے طاقتور جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوج سے ٹکرایا ۔ “ہماری گولیاں مقدس امانت ہیں، ہمارے بندوق خونریزی کیلئے نہیں بلکہ مکمل امن کی بحالی کیلئےہیں، مادر وطن کے دفاع کیلئے ہیں، دشمن کے پاس وسائل کی کمی نہیں لیکن ہمارے پاس جذبہ حریت ہے۔ ویتنامی عوام کی خواہش، امنگیں، آرزوئیں اور دنیا بھر کے مظلوم و محکوم طبقات و عوام کی حمایت و جذبات موجزن ہیں۔ آج لاؤس، کمبوڈیا، ویت نام اور یہ سارا خطہ دشمن کی خودغرضانہ لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ مگر ہماری بندوقیں ان شعلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجھانے کیلئے ہیں۔” (گیاب ہند چینی امن کانفرنس 1962ء)

جنرل گیاب نے حربی حکمت عملیوں کے ذریعے ویت نام پر قابض فرانسیسی اور بعد ازاں امریکہ کے پانچ لاکھ ریگولر آرمی کو ایک دن بھی سکون کا سانس لینے نہیں دیا۔ ہوچی منہ نے بجا طور پر کہا تھا “اگر جنرل گیاب نہ ہوتے تو شاید میں بھی نہ ہوتا ” سارا مغربی میڈیا اور امریکی اتھارٹی یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ امریکی افواج شمالی ویت اور چند مٹھی بھر شرپسندوں کی جنوبی ویت پر مداخلت کو روکنے اور امن کی بحالی کیلئے مصروفِ عمل ہیں۔ جبکہ جنرل گیاب نے ہر موقع پر کہا کہ جنوبی اور شمالی ویت ایک ہی ہیں اور ہم ساری دنیا کے سامنے قابضین اور حملہ آوروں کو بے نقاب کردینگے اور جنرل گیاب نے ایسا کردکھایا۔ کیونکہ بہت جلد ہی امریکی صدر جانسن نے کہا کہ ” ہم کیا کرسکتے ہیں، سارا ویت نام اور ہندی چینی بلکہ ساری دنیا ویت نام میں ہماری موجودگی کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ ہمیں ویت نام سے نکالنا چاہتے ہیں ”

بلآخر اس عظیم جنرل کی شاندار حکمت عملیوں کی بدولت جنیوا امن کانفرنس منعقد ہوا اور اس کانفرنس میں یہ معاہدہ طے پایا کہ امریکی افواج ویت نام سے جلد نکل جائیگی اور ویت نامی قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ اس معاہدے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تمام فریقین نے دستخط کیئے۔ اور بلآخر 1973ء میں امریکی افواج ہند چینی سے نکل گئی، شمالی اور جنوبی ویت نام پھر سے متحد ہوکر ایک ملک بن گئے۔ آج ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا نہ صرف آزاد ہیں۔ بلکہ مشرقِ بعید کے تمام ممالک میں امن و استحکام ہیں یہ معاشی سمبل بھی ہیں۔

بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک مختلف نشیب و فراز طے کرکے بلآخر سنجیدہ جدوجہد کی صورت اختیار کرچکی ہے، لازوال قربانیوں کی اس تحریک کو جنرل اسلم شہید کی تدبر، دانائی نے قابض ریاست اور توسیع پسند چین کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ توسیع پسند چین کے حکمران یہ بھول چکے ہیں کہ ویتنام کی عظیم تحریک میں ان کا کردار کیا تھا، ماؤزے تنگ اور چوئن لائی نے اعلانیہ اخلاقی مالی و فوجی امداد کے ذریعے ویت نام کے حریت پسندوں کی مدد کی۔

آج چین کا کردار ظالمانہ اور سامراجی ہے۔ افریقہ اور ایشیاء کے خطوں میں عدم استحکام کا سبب بنا ہوا ہے۔ بلوچ گلزمین پر قابض ریاست کے ساتھ ملکر بلوچ قوم کی تاریخی سرزمین کو اپنے فوجی مقاصد میں استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ قابض ریاست کی ہتھکنڈوں کی وجہ سے یہ سارا خطہ عدم استحکام اور خون ریزی کا شکار ہے۔ افغانستان سے لیکر حتیٰ کہ کشمیر تک اس کی چیرہ دستیاں دنیا کے سامنے عیاں ہیں اور خود بھی داخلی تضادات کا شکار ہے۔ اسکی وجہ سے اس سارے خطے میں انتشار ہے۔ اور انسانی خون ارزاں ہیں اس عمل میں توسیع پسند چین، پاکستانی جنریلوں کی مکمل طور پر پشت پناہی کررہی ہے۔ سی پیک جیسے خونی منصوبے دوسرے قوموں کی مرضی کے بغیر ان کی سرزمین اور خاص طور پر بلوچ وطن میں عمل میں لائی جارہی ہے۔ اور قبضہ گیر کے ساتھ ملکر خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

جنرل اسلم شہید نے انتہائ دانائی سے چین اور پاکستانی جنریلوں کے خونی منصوبوں کو سبوتاژ کرکے جنرل گیاب کی یاد تازہ کردی۔ جنرل اسلم شہید نے بے پناہ تدبر کا مظاہرہ کرکے چین کے ظالمانہ و خودغرضانہ مفادات پر کاری ضرب لگایا۔ جنرل صاحب یہ دکھانا چاہتے تھے چین کے بغیر پاکستانی قابض جنریلوں کی حیثیت و اوقات نہیں ہے اور سی پیک بلوچ وطن اور خطے کیلئے خونی لکیر ہے۔ جنرل اسلم شہید اپنے عظیم مقصد میں سرخرو و کامیاب ہوئے۔ جب توسیع پسند چین کے مفادات پر زبردست زد پڑی تو قابض ریاست اور قابض فوج بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔

اسی بوکھلاہٹ اور اضطراب کے عالم میں اپنے ایجاد کردہ پروموٹ کئے گئے خودکش ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے عظیم جنرل اسلم کو شہید کردیا۔ دوسری طرف ساری دنیا نے دیکھا کہ خودکش دستے کس کے ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں۔ ایک جانب افغانستان میں اپنے وزیر خارجہ اور وفود بھیج کر امن کی باتیں کرنے والا پہلے سے زیادہ بے نقاب ہوگیا۔ اس بوکھلاہٹ میں قابض ریاست کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل اسلم کی شہادت کے بعد قابض اور اس کے حکمرانوں کو یہ ہمت ہی نہیں ہورہا کہ اعلانیہ اسکی ذمہ داری قبول کرسکیں، عظیم جنرل اسلم شہید نے قابض ریاست کوخطرناک صورتحال سے دوچار کرکے قومی آزادی کی جنگ کو نئی توانائی اور نئی جدت دی ہے، جو قومی آزادی کی جاری تحریک میں ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ جو اس سے پہلے اس جنگ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔

جنرل اسلم شہید نے اپنے شاندار حکمت عملی کے ذریعے قابض ریاست اور توسیع پسند چین اور ان کے حکمرانوں کو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کرکے دکھادیا کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ بلوچ وطن کی آزادی کے ساتھ یہ جنگ اس سارے خطے کی امن و استحکام و خوشحالی کی جنگ ہے۔ بلوچ یہ جنگ اکیلے لڑرہی ہے۔ اس خطے کے سارے ممالک اور عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ اس عظیم جنگ میں بلوچ قوم کا ساتھ دیں۔ تاکہ جلد از جلد بلوچ وطن کی آزادی کے ساتھ یہ سارا خطہ امن و سلامتی آسودگی اور برادرانہ رشتوں میں بندھکر مشرقِ بعید کی معاشی سمبل بن جائے۔ اور دنیا کو بھی چین اور قابض ریاست کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں سے نجات مل سکے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔