جرات و استقامت کی عظیم مثال استاد اسلم بلوچ – عبدالواجد بلوچ

566

جرات و استقامت کی عظیم مثال
استاد اسلم بلوچ

عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

استاد جنرل اسلم بلوچ کی عدیم النظیر شخصیت کا اندازہ ان کی اس فقید المثال قربانی سے کیا جا سکتا ہے، جو انھوں نے میدانِ آجوئی میں پیش کی. استاد کے اس عظیم مقام کی اس مؤثر اور عالمگیر قربانی نے بلوچ تحریک میں ہر دل کو مسخر کردیا، گوکہ نام نہاد لیڈرشپ کی کارکردگی صفر ہی ہے، کیونکہ آپ نے یہ قربانی توقیر انسانیت کے احیاء کے لئے بڑے خلوص اور سچائی کے ساتھ پیش کی، جس سے بلوچ قومی آزادی اور بلوچ سرزمین کا غیروں کے تسلط سے چھٹکارا اور خطے میں پائیدار امن لانے کا راز کارفرما تھا۔ جس میں آپ کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا۔ گو کہ چند منافع خور قوتوں نے ان کی بے مثال قربانیوں کو ان کے ذاتی مقصد کے حصول تک نتھی کیا تھا. بلوچ قومی آزادی کے لئے جو مقصد آپ کے پیش نظر تھا وہ اتنا اعلیٰ تھا کہ اس سے بڑھ کر کوئی مقصد شعورِ انسانی سوچ نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ بلوچ قومی تاریخ میں ان کی قربانی تسخیرِ قلوب کی بے پناہ مثال ہے۔

استاد اسلم بلوچ ہمیشہ جبر و استبداد کے سخت مخالف تھے اور ان کا مقصد قومی تحریک کو ادارہ فراہم کرنا تھا، تحریک کے اندر تھانہ شاہی آمریت کے سخت حریف تھے اور انہوں نے حصولِ شہادت تک اس فارمولے پر کاربند رہ کر بی ایل اے کو ایک مضبوط ادارہ فراہم کیا۔ جس کے اندر ایک تعلیم یافتہ ہنر مند گوریلوں کا کھیپ موجود ہے. آپ مساوات، عدل و انصاف اور حریتِ فکر و اظہار کے حامی تھے. یہی وہ امرِ خاص تھی، جس میں انہوں نے غیروں کی تسلط کو روکنے اور سامراج کے گال پر زور دار طمانچہ مارنے کے لئے اپنے لخت جگر کو قربان کیا۔ جس سے ہر دَور کے مظلوم، ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہو، ان کی قربانیوں سے تحریک حرارت پا سکے.

اگر ہم اس وقت کے ماحول پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جبر و اقتدار نے عوام سے قوتِ احساس اور جرأتِ اظہار کو سلب کرلیا تھا۔ آمرانہ پالیسیوں اور منافع خوری کے کینسر نے اکثر سیاسی کارکنان کو مایوسی کے دلدل میں پھینکا تھا، استاد نے اس نقص کو مدنظر رکھ کر ان سیاسی کارکنان کی قوتوں کو بیدار کیا۔ جبر و استبداد کے ذریعے ممالک کو فتح کیا جا سکتا ہے، قومیں غلام بنائی جا سکتی ہیں، مگر کسی قوم کے مردہ احساسات میں جان نہیں ڈالی جا سکتی، آمرانہ طرز فکر کو چیلنج دے کر استاد اسلم نے کارکنان کو ایک مرتبہ پھر حوصلہ بخشا تھا. انہوں نے قوت کا مقابلہ کردار سے، ظلم کا مقابلہ مظلومیت سے اور اکثریت کا مقابلہ اقلیت سے کیا۔ یہ وہ طریقہِ جنگ تھا کہ جس نے احساساتِ مردہ میں جان ڈال کر آمرانہ سلطنت و مغرورانہ فکر کے حامل افراد کا خاتمہ کردیا۔

آپ کا مقصد اگر اقتدار کا حصول ہوتا تو آپ منافق و منافع خور فوج جمع کرتے، ہتھیار کا ڈھیر لگاتے اور میدانِ کارزار میں چاپلوس و پیداگیروں کا جم غفیر جمع کرتے، مگر یہ تو انقلابِ ذہنیت کی جنگ تھی، یہاں جسم نہیں سوچ مضبوط کرنے تھے۔ یہاں کسی خاص شخص کا تختہ نہیں اُلٹنا تھا، بلکہ تاحصولِ آزادی ذہنوں کو بدلنا مقصود تھا۔

جب مقصد انقلاب ہو تو پھر صرف جوان و توانا سپاہیوں کی ہی نہیں، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، حتیٰ کہ بچوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہی وہ سوچ تھی جن کو استاد اسلم نے پروان چڑھایا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔