وزیر اعلیٰ سے ملاقات نہ ہو سکی، ہمیں جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہے – سیما بلوچ

334

کوئٹہ میں احتجاج پر بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کی وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات نہیں ہوسکی، ہمیں جھوٹی تسلیاں دے کر زندہ کیا جاتا اور پھر سے موت دی جاتی ہے – سیما بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز دیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاج پر بیٹھے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی ملاقات وزیر اعلیٰ بلوچستان سے نہیں ہوسکی جس کے باعث لاپتہ افراد کے لواحقین میں ایک بار پھر بے چینی پھیل گئی ہے لیکن وہ اپنااحتجاج جاری رکھنے پر پُرعزم ہیں۔

بروز ہفتہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا احتجاجی کیمپ وزیر اعلیٰ بلوچستان ہاؤس کے قریب منتقل کردیا تھا جہاں انہوں نے رات گئے دیر تک دھرنا دیا اور بعد ازاں حکام بالاء نے انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کی ملاقات اتوار کے روز وزیر اعلیٰ بلوچستان سے کرائی جائے گی جس پر لواحقین نا اپنا احتجاجی دھرنا ختم کردیا لیکن ایک بار پھر ان کی ملاقات وزیر اعلیٰ سے نہیں ہوسکی۔

لاپتہ طالبعلم شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ کااس حوالے سے سوشل میڈیا میں اپنا ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا ہے کہ دو مہینے سے زیادہ ہم کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سن رہا۔گذشتہ دن بروز ہفتہ ہم نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے اپنا احتجاجی کیمپ منتقل کیا اور رات 2بجے تک دھرنا دیا۔

سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ پہلے تو ڈسٹرکٹ کمشنرنے ہمیں احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں گرفتاری کی دھمکیاں دی اورفورسز نے ہمارا گھیراؤں کیاجبکہ بعد میں انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ آپ کی ملاقات وزیر اعلیٰ سے کرائی جائے گی جس پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا دھرنا ختم کیا۔

سیما بلوچ نے مزید کہا کہ بروزاتوار ہم صبح سے یہی امید لیکر آئے کہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات ہوگی، پہلے ہمیں پانچ بجے کا وقت دیا گیا بعد میں چھ بجے ہمیں بلایاگیالیکن وہاں پہنچ کرڈسٹرکٹ کمشنر ہمیں صوبائی اسمبلی کے ممبران کے پاس لے گیا اور ہمیں وزراء کی جانب سے جواب دیا گیا کہ وزیر اعلیٰ یہاں موجود نہیں ہے لہٰذا آپ کی ان سے ملاقات نہیں ہوسکتی ہے۔

سیما بلوچ بلوچ نے سوال اٹھایا کہ کیا ڈسٹرکٹ کمشنر کو رات کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعلیٰ یہاں پر نہیں ہے اور کیوں وزیر اعلیٰ ہم سے ملاقات نہیں کررہاہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ سردی میں بچے، بوڑھے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیں جن میں سے بہت سے بیمار ہے، شدید سردی کی وجہ سے شاید ہم میں سے کوئی مربھی جائے لیکن ہمیں اپنی موت کی فکر نہیں کیونکہ ہمارے پیارے نہ جانے کس حالت میں ہے، انہیں سردی میں پہننے کیلئے کچھ میسرہے بھی یا نہیں ہے۔ہم اپنے بھائیوں کی جدائی کے درد کے باعث سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جب تک ہمارے بھائی واپس نہیں لائے جائینگے ہم احتجاج پر بیٹھے رہینگے۔

سیما بلوچ نے کہا کہ ہم وزیر اعلیٰ بلوچستان، آرمی چیف آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو واپس لایا جائے۔ ہمیں اس طرح کی جھوٹی تسلیاں نہیں دی جائے ۔ اس طرح کی تسلیاں دیکر ہمیں زندہ کیا جاتا ہے اور پھر سے موت دی جاتی ہے۔

دریں اثناء بروز سوشل میڈیا پرلاپتہ بلوچ افراد کے عدم بازیابی کے خلاف کمپین چلائی گئی جو مقبول ترین ٹرینڈز کے لسٹ میں شامل رہی، سوشل میڈیا کمپین کا اعلان ’بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ‘ کی جانب سے #SaveBalochMissingPersons کے ہیش ٹیگ کے نام سے کیا گیا تھا جبکہ کمپین میں بلوچ اور پشتون سوشل میڈیا ایکٹوسٹس سمیت سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور حصہ لیا۔

یاد رہے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ ایک دہائی سے وائس فار بلوچ مسنگ کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے جبکہ اس احتجاج میں گذشتہ دو مہینے کے عرصے میں وسعت دیکھی گئی جہاں لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ کے ہمراہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین اس احتجاج کا حصہ بنی تھی۔