ہم خوف کے مارے لوگ ۔ شاھبیگ بلوچ  

845

“ہم خوف کے مارے لوگ”
پیاری بہن عائشہ بلوچ کے نام

شاھبیگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

میں بہت عرصے سے کچھ تلخ باتیں کچھ اپنی نالائقیاں، کمزوریاں، بہانے، ڈر خوف، اور عمل سے دور رہنے کے ہزار تاویلیں آپ کے سامنے بیان کرکے آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ اس امید کے ساتھ آپ کی توسط سے یہ باتیں اماں یاسمین تک پہنچ جائینگی۔ میں آپ کو یہ خط نما تحریر لکھ رہا ہوں۔

میری پیاری بہن! میرا آپ سے روحانی ملاقات شہید ریحان جان کی شہادت کے بعد آپ کی تحریر کی وجہ ہوئی۔ آپ کی تحریر کو پڑھکر یہ احساس ہوا کہ صرف ریحان ہی نہیں بلکہ استاد اسلم بلوچ اور اماں یاسمین کے گھر کا ہر ایک فرزند اور دختر انقلاب اور آزادی کو اپنے سانسوں سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسکی خاطر کسی بھی طرح کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار ہے۔

آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد ایسا لگا کہ ایک بہن کے تاثرات ہوسکتے ہیں، اپنے شہید بھائی کی محبت میں لیکن پھر آپکا اپنے بھائی کی قربانی پر اس طرح فخریہ جشن منانے کے جذبے کو دیکھ کر انسانی شعور اور سوچ دنگ اور حیران رہ جاتا ہے۔

آپ کی ایمانداری کو دیکھ کر یقیناً اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کے آپ اس بناوٹی، خودغرض، لالچی، خوفزدہ، بہانے ڈھونڈنے والی دنیا کے چالوں سے بلکل بھی آشنا نہیں اور اپنے عزم اور ایمانداری کے ساتھ جانب منزل رواں دواں ہیں۔

میری پیاری بہن! بہت معذرت کے سات کہنا چاہونگا کہ مجھ سمیت شائد کوئی بھی ریحان جان کی قربانی کو ابھی تک سمجھ سکا ہو۔ اگرسمجھ سکتا تو کیا ہم ایسی تاویلیں پیش کررہے ہوتے؟ جو آج پیش ہورہیں ہیں۔ جن میں سرفہرست ریحان جان کی قربانی کو استاد اسلم بلوچ کی کردار کو سنوارنے کی خاطر استعمال کرنے کا نام دیا جائے۔ خیر ان سے کیا گلہ جو دشمن سے بھی بدتر زبان استعمال کرتے ہوں۔ لیکن ہم جو خود کو ریحان کا دوست کہتے نہیں تھکتے۔ ہم جو ہر محفل میں اسلم بلوچ کو اپنا رہنما اور استاد کہہ کر پکارتے ہیں کیا ہم واقعی اس استاد کی دی گئی تعلیمات پر عمل کررہے ہیں؟

آج ہم اس خطر خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ہم عمل کو پس پشت ڈال کر اپنی علمی ذہانت دکھانے میں مگن ہیں۔ کیا ریحان جان کی قربانی کا حاصل حصول صرف آرٹیکلز یا شاعریوں کی صورت میں ہوگا یا پھر ہم واقعتاً فدائی ریحان جان کے دکھائے گئے راستے پر گامزن ہوکر شہید کی ایک اکیلی خواہش، بلوچ قومی آزادی کی منزل جانب محو سفر ہوگی۔

ریحان جان کی شہادت کے بعد ایک ایسا جذباتی ماحول پیدا ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے بہتری کی جانب گامزن ہورہے ہیں۔ لیکن جونہی اس ماحول کو خراب کرنے کی ایک کوشش کی گئی، ہم سب نے منزل چھوڑ کر اُس بے فائدہ اور بلا وجہ کی فضولیات جسے بحث کا نام دیا جاتا ہے کا حصہ بنے۔ اپنے اصلی ناموں یا فیک آئڈیز سے اس تنقیدی کام میں ہمراہ داری کی گئی۔ اس ماحول کو دوستوں کی تنبیہہ کرنے کے بعد ایک حد تک ختم کردیا گیا۔

پیاری بہن! اوپر کی گئی باتیں وہ باتیں جن کا ادراک سب ہی رکھتے ہیں۔ لیکن میں بات کررہا ہوں مجھ جیسے لوگوں کی ہم جو خوفزدہ لوگ ہیں، جنہیں یہ سوچ کھاتی رہتی ہے میری زندگی ، میرا گھر، میرا خاندان ، میری بیوی ، میرے بچے یا میری نوکری تو ایسی سوچ کے مالک مجھ جیسے لوگوں سے عمل کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ ہم جو ناخن کاٹتے وقت لگنے والی چوٹ پر ہفتہ بھر درد اور کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہم جو اپنے مجلسوں کی زینت، عمر مختار، نیلسن منڈیلا، بھگت سنگھ کو بناتے ہیں ان پر بحث کرتے ہیں اپنی تحریروں میں انکا حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن جب بھی بلوچستان کے بابت عمل کرنے کے بات آتی ہے تو ہم قانونی پہلووں کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر انسانی حقوق کا رائتہ بناکر بھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب انڈیا، لیبیا یا افریقہ میں جدوجہد جاری تھی تو ان رہنماوں نے بھی انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف بندوق کا استعمال کرکے اپنے بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑی تھی۔

ہم جو خود کو جذباتی نہیں عملی کہتے ہیں، ہم جو اس سوچ میں رہتے ہیں کیسے میں ایک عہدے پر فائز ہوکر ساری زندگی وہیں براجمان رہوں، ہم جو جن کی موت کجا کسی بھی طرح کی ذہنی، مالی و جسمانی پریشانی کا نام سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم جو یہ سمجھتے ہیں ہم انسانی حقوق، حقوق نسواں، تعلیمی حقوق، زبان ءُ ثقافتی حقوق کا راگ الاپ کر اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئے ہیں۔ ہم جو زندہ رہنا چاہتے ہیں ہم جو زندگی کو اہمیت دیتے ہیں نظریات پر ہم جیسے لوگوں میں شعور ریحان کا آنا، سوچ ریحان کا آنا، ریحان جان کی طرح وطن دوستی کے جذبے سے سرشار ہونا، اپنی زندگی، نوجوانی، خاندان، بہن، بھائی، والدین، دوست اور ساتھیوں مثلاً سب کچھ وطن مادر پر نچھاور کرنے کی ہمت ہم میں نہیں۔

اگر ہم کچھ کرینگے تو کسی لاپتہ افراد کی خاطر احتجاج کرینگے، کسی شہید کو سرخ سلام پیش کرینگے۔ یا اگر بہت ہی زیادہ جذباتی ہو جائینگے تو دو چار اور مضمون لکھے جائینگے۔ پیاری بہن میں جانتا ہوں استاد نے اماں نے آپ نے یا فدائی ریحان جان نے یہ قربانی مجھ جیسے ہی خوف زدہ لوگوں کو بیدار کرنے کی خاطر دی ہے۔ مجھے خبر ہے کہ ریحان جان کے بیرگیڈ کے ہمراہ آج بھی اپنے تنظیم کے رہنما استاد اسلم کے حکم کا انتظار کررہے ہیں۔ میں اس بات کا بھی اچھی طرح ادراک رکھتا ہوں کہ ریحان جان دشمن کو کس قدر خوف میں مبتلا کرگیا ہے۔ لیکن پیاری بہن ان تمام حالات واقعات کے باوجود بھی میں اپنی مجبوریوں کو جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر یہ تمام باتیں صرف اس لئے آپ کے سامنے کررہا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ انہی باتوں کو سن کر میرا مردہ ضمیر جاگ اٹھے اور ہم اپنے فرض کو سمجھ سکیں اور اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرسکیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔