کمسن مجید ۔ آکاش بلوچ

264

کمسن مجید

تحریر۔ آکاش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

18 اکتوبر 2010 کے دن کمسن مجید جان کو ریاستی خفیہ اہلکاروں نے اسکی دکان سے لاپتہ کرکے 24 اکتوبر 2010 کو 8 دن بعد شہید کرکے اسکی مسخ شدہ لاش رابعہ خضداری روڈ خضدار سڑک کے کنارے سے ملی، جس کے جسم پر ڈرل مشین اور سینے پر 3 گولیوں کے نشان تھے۔

دشمن نے مجید جان کو شہید کرکے اسکے خاندان میں خوف پیدا کرنےکی ناکام کوشش کی، اس سے پہلے کئی بار گھر پر گرنیڈ حملے کئے گئے، مگر دشمن کو یہ معلوم نہیں تھا، یہ ایک مظبوط نظریہ ہے، جو شہادت سے اور بھی مظبوط ہوتا ہے۔

میں کبھی نہ بھول پاوں گا، اس دن کو جب حئی کے لہجے نے خود بتایاکہ مجید نے دشمن کو اذیت خانوں میں بھی آنکھیں دکھا کرآخری وقت وطن پر قربان ہوا، کمسن مجید کی شہادت نے نا صرف حالات بدل دیئے بلکہ سنگت کے شہادت کے بعد ایک نئے موڑ کا آغاز ہوا شہری محاذ پر موجود شہید حئی اور شہید ضیاء عرف دلجان اور باقی دوستوں نے شہر کو خیرباد کرکے پہاڑوں کا رخ کیا۔

24 آکتوبر 2010 کے دن صبح کے وقت میرے جگر کے ٹکڑے سنگت کمسن مجید کی لاش جب رابعہ روڈ خضدار سے ملی یہ الگ کیفیت تھا ہم جیسوں کے لیئے، مگر سنگت اور اسکا خاندان اس دن کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ مجید جان کے اغواء اور شہادت نے ہم جیسوں کو حیران کردیا، پر سنگت نثار جیسے بہادروں کو راستہ دکھا کر اور پختگی سے دشمن کے ساتھ لڑنے کے لیئے تیار کردیا، سنگت مجید جان اپنی کم عمری میں جس بہادری کے ساتھ دشمن کے اذیت خانوں میں اذیت سہہ کر دشمن کو باور کرایا کہ ہم کوئی عام چور ڈاکو نہیں ہمارے پاس ایک مظبوط نظریہ ہے۔

ہم اپنے نظریے پر قربان ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، مجید کو یقین تھا یہ کاروان میرے بعد اور مظبوطی سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگا، تبھی تو مجید جان نے دشمن کے بھی سوال کا جواب نہیں دیا، جس سے دشمن طیش میں آکر مجید جان کو شہید کردیا، اسی بہادری نے میرے سنگت نثار کو لوہا بنا کر میدان جنگ میں بغیر خوف کے لڑنا سکھا دیا اور وہیں ضیاء نے آخری گولی کے ساتھ سب راز اپنے اندر ہمیشہ کے لئے جذب کرلیا۔

ایسے بہادروں کی قربانیاں قوموں کے لیے شمع کے مانند ہوتیں ہیں، وہ شمع جو اپنے منزل کے راہی کو اسکا راستہ دکھا کر اسکی رہنمائی کرتا ہے۔

مجید کے کمسن بدن سے بہنے والے لہو سے جلے شمعیں اندھیری راہوں میں سفر کرنے والوں کو راستہ دیکھاتا رہا بلکہ نیند میں سوئے ہوئے نوجوانوں کو نیند سے بیدار کردیا، اپنے دوست مجید اول، مجید ثانی کے نام کی لاج رکھتے ہوئے وطن پر قربان ہوا، بتا دیا مجید ہر دور میں لڑے گا۔

14 سالہ مجید یہ سب کچھ کہاں سے سیکھا ہوگا، ایسا پختہ ارادہ، جذبہ کس استاد نے دیا ہوگا، اس عمر میں وہ اپنے دوست دشمن کو کیسے پہچانا ہوگا؟ یہ سب اس بہادر خاندان کے خون میں شامل ہوگا، تب ہی تو سنگت کی شہادت اس کے خاندان کو کمزور نہ کرسکا، شہید مجید جان کی شہادت کے بعد انکے والد شہید حاجی محمد رمضان کی شہادت ہو یا 8 نومبر 2012 کا وہ سیاہ ترین دن جس میں میرے استاد سنگت حئی کی شہادت ہو یا 19 فروری 2018 سنگت ضیاء عرف دلجان کی بہادرانہ شہادت ہو ان نوجوانوں کی شہادت نے اس خاندان کو مضبوط کردیا، مادر وطن پر جان نچھاور کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔