فورسزکی قید سے زندہ نکلنے والے پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتے ہیں , ماماقدیر بلوچ

149
file photo

لاپتہ بلوچ اسیران اور شہداکے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3365دن ہوگئے ۔

لاپتہ بلوچ اسیران اور شہدا کے لواحقین سے اظہاریکجہتی کرنے والوں میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ،ولی محمد بنگلزئی اور دیگر نے شامل تھے۔

وائس فار مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین ماماقدیر بلوچ نے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان کے اب تک کے صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو ریاست قبضہ گیریت اور اپنی کالونیل پالیسیوں کو دوام دینے کے لئے شدت لارہی ہے ۔

ماماقدیر بلوچ نے کہا بلوچستان کی تحریک کا جو دورانیہ ہے اس میں ریاستی دہشت گردی لوگوں کو اٹھانا اور اغواء کرنا انہیں تشدد کا نشانہ بنانا اور ان کی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے ۔اب چونکہ نئی حکومت سامنے آئی ہے اسے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح پاکستانی فورسز اور ایف سی استعمال کررہی ہے تاکہ بلوچ نسل کشی میں تیزی لائی جاسکے ۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ اب انسانی حقوق کے علمبردار بخوبی انداز ہ لگاسکتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کی کس بے دردی سے نسل کشی کی جارہی ہے جس کو سست رفتار نسل کشی کہتے ہیں یہ صور ت حال روز بہ روز گھمبیر ہوتی جارہی ہے اور اس کا مقصد ریاست کی جانب سے اپنی قبضہ گیریت کو دوام دیناہے ۔

ماماقدیر نے کہا کہ جہاں تک ایف سی اور دیگر فورسز کی بات ہے تو وہ ہیں بلوچوں کے قاتل ہیں جن کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگے ہیں ۔وہ بلوچوں کامداواکرنے کے لئے نہیں بلکہ بلوچوں کو مارنے لئے آئے ہوئے ہیں ہم نے شروع ہی سے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ریاست کی ظلم و بربریت کانوٹس لیں کیونکہ اس وقت نہ صرف بلوچ قوم کی نسل کشی ہورہی ہے بلکہ ان کی ثقافت ،زبان کو ملیامیٹ کیاجارہاہے

ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اہل قلم ،علم و دانش طبقے کوبھی نشانہ بنارہاہے یقیناًایک دن دنیا اس مظالم کا نوٹس لے گی اور ہم امید کے ساتھ جدوجہد جاری رکھیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ زندانوں میں بلوچ فرزندوں انتہائی درجے کی حیوانیت کا نشانہ بن جاتے ہیں اور تشدد ہی سے لوگ شہید ہوتے ہیں اوربالفرض محال اگر کوئی فورسز کی قید سے زندہ بھی بچ جائے تو وہ پی ٹی ایس ڈی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا ہوتے ہیں اوراپنی یادداشت اورحواس کھوچکے ہوتے ہیں۔