شہید ریحان جان اور بلوچ قومی تحریک مختصر جائزہ – مرید بلوچ

592

شہید ریحان جان اور بلوچ قومی تحریک مختصر جائزہ

مرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان بلوچ زندہ تھا، ریحان بلوچ آج بھی زندہ ہے، ریحان بلوچ کل بھی زندہ رہے گا۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ جنم لیتے ہیں۔ ماں کی گود سے لیکر آخرِ موت تک لیکن بعض انسان ایسے بھی ہیں جو مر کر بھی اس دنیا میں زندہ و جاوید رہتے ہیں۔

پتہ نہیں کہاں سے ابتدا کروں، کہاں سے اختتام۔ ذہن میں ہزاروں سوالات آرہے ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ خودکش دھماکہ کرنا آسان نہیں۔ لفظ خودکش کا نام آتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے طالبان اور القائدہ کا نام آتا ہے کیونک خودکش دھماکے تو صرف طالبان اور القائدہ ہی کرتے ہیں لیکن دراصل ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خودکش دھماکے مظلوم انصاف، شناخت، آزادی کےلیے بھی کرتا ہے۔ ظالم کے خلاف اگر سامراج پاکستان کے خلاف کوئی خودکش دھماکہ کریں تو اٌسے ناسور یا حرام قرار دیا جاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خودکش دھماکے مظلوم اپنی مظلومیت کو مٹانے کےلیئے ظالم کے خلاف کرتے ہیں۔

ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک میں فدائین خودکش حملہ آور کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فدائین شہید مجید اول سے لیکر فدائین شہید دروش بلوچ اور فدائین شہید ریحان بلوچ سے لیکر یہ کاروان جاری و ساری ہے۔ 22 سالہ فدائین حملہ آور شہید ریحان بلوچ، بلوچ سرزمین بلوچ قوم کےلیئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے۔ اگر آج 22 سالہ ریحان جان جیسا نوجوان خودکش دھماکہ کرسکتا ہے، بلوچ سرزمین کےلیئے تو پاکستان کیا بلوچ قوم کو کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

بقول شہید میر محراب خان “بلوچ اپنا سر کٹوا سکتا ہے لیکن جھکا نہیں سکتا۔” اگر بلوچ اپنا سر کٹوا سکتا ہے اس کا مطلب ہے بلوچ جنگ جیت سکتا ہے۔

11 اگست کی رات کو جب معلوم ہوا کہ دالبندین میں بلوچ لبریشن آرمی نے خودکش حملہ کیا ہے۔ حملے میں تین چینی انجینئیرز ہلاک اور متعدد پاکستانی آرمی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کی زمہ داری آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ معلوم ہوا کہ خودکش حملہ آور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اٌستاد اسلم بلوچ کے پیارے بیٹے ہیں۔ معلوم ہی نہیں تھا کہ بلوچ قوم میں بہادر، نڈر، دلیر، عظمت، جرات اور طاقت رکھنے والے ریحان جان موجود ہیں۔

ریحان جان کا نام پہلی کبھی بھی نہیں سنا تھا۔ ریحان جان کے بارے میں پہلے کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ ریحان جان کون ہیں۔ کہاں سے ہیں۔ کس کے بیٹے ہیں۔ کس مسلح تنظیم سے تعلق ہے۔ بارہ اگست کی صبح کو سب معلوم ہوا کہ ریحان جان کون ہیں۔

ماں یاسمین جان آپکو ہزار سلام کے آپ نے بہادر،نڈر،دلیر ہمت، عظمت، جرات والا بہادر بیٹا شہید ریحان جان کو جنم دیا۔ اماں جان آپ کو معلوم ہے آپ کا بیٹا ریحان جان کتنا عظیم بن چکا ہے۔ آپکے بیٹے کی شہادت کا حال بلوچ قوم کو مبارک ہو۔ آپکے بیٹے نے وہ کام کر دکھایا جس سے پہلے شہید مجید اول شہید درویش اور آپکا بیٹا شہید ریحان نے کر دکھایا۔

کماش اٌستاد اسلم بلوچ آپ کو ہزار سلام کہ آپ کے پیارے بیٹے شہید ریحان جان نے بہادری، ہمتی، دلیری، جوان مردی کے ساتھ دشمن کے خلاف نبردآزماں ہوا۔ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان دینے کےلیے خودکش دھماکہ کرنے کی راہ کو تقویت دی۔ کمانڈر اٌستاد اسلم جان خودکش کا راستہ انتخاب کرنا بہت مشکل، پر کھٹن، شدید تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود آپکا پیارا بیٹا، شہید ریحان جان خودکش راستے پر جانے کو تقویت دیتا ہے اور آپ اسے روکتے بھی نہیں ہیں۔

اٌستاد آپ کو معلوم ہے لوگ کہتے ہیں بلوچ قومی تحریک کے تمام رہنماؤں کے خاندان باہر ممالک مقیم ہیں۔ وہاں عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہیں اور یہاں بلوچستان میدان جنگ میں معصوم اور بے گناہ بلوچوں کو آپ جیسے رہنما یا دیگر رہنما مروارہے ہیں۔ لیکن 11 اگست کو سب معلوم ہوا۔ غرض کہ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ شہادت کی موت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ شہادت کی موت قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔

ریحان بلوچ کی شہادت کے بعد ہر کسی نے آرٹیکل لکھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریحان اتنا عظیم بن چکا ہے کہ ہر بلوچ کے دل میں موجود ہے۔ ریحان جان کی شہادت کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ بلوچ قومی تحریک میں مایوسی ختم ہوچکی ہے اور بلوچ قومی تحریک مکمل کامیابی کی جانب رواں دواں ہے۔ دِل کرتا ہے کہ ایسے ایسے الفاظ بیان کروں ریحان بلوچ کےلیئے جو پڑھنے کے لائق ہوں۔

ریحان جان آج ہم میں نہیں رہے، لیکن بہادر۔نڈر ہمت والا عظمت والا جرات والا دلیر ریحان جان کی سوچ و نظریہ ہمارے درمیان موجود ہے۔

کیا آج ہم صرف ریحان بلوچ کو شہادت کی مبارک باد دیتے ہیں یا ہم خود شہادت کے عظیم رٌتبے پر فائز ہونے کےلیے تیار ہے؟ یا ہم صرف شہیدوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں، فلاں شہید کو سہریں سلام جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کےلیے وقف کی ہیں یا ہم خود شہید ہونے کےلیے تیار ہیں؟ ہم اپنے دیوانوں میں کہتے ہیں بلوچ سرمچاروں کو سٌہریں سلام کیونکہ بلوچ سرمچار گرم، سرد، بھوک، پیاس سب برادشت کررہے ہیں۔ کیا ہم خود سرمچار بننے کےلیے تیار ہیں؟ ہم کہتے ہیں سٌہریں سلام اٌن سنگتوں کو جو آج زندان میں قید ہیں، اذیتیں تکلیفیں مشکلات سب برداشت کررہے ہیں لیکن اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکالتے۔ کیا ہم خود زندان میں جانے کےلیے فکری حوالے سے تیار ہیں؟ کیا ہم خود عمل کررہے ہیں؟ کیا ہم ریحان جان سمیت تمام شہیدوں کی ارمان کو پورا کرینگے؟

معذرت کے ساتھ آج ہم شہید ریحان جان کو سلام پیش کرنے کے بجائے کہتے ہیں یہ کاروائی صرف دو معطل شدہ کمانڈر استاد اسلم بلوچ اور بشیرزیب بلوچ کی اپیل سے کی گئی ہے۔ آج ہم سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کی ٹانگ کیھنچنے کو تیار ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کو بلوچ قومی تحریک کی مفاد کم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کےلیے زیادہ استعمال کررہے ہیں۔

آج ہم کہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک میں کوئی رہنما نہیں ہے۔ شاید میں غلط ہوں لیکن میرے خیال سے بلوچ قومی تحریک میں بےشمار رہنما موجود ہیں۔ ہم کہتے ہیں موؤمنٹ میں کوئی بھی رہنما اپنے اپنے تنظیم یا پارٹی کو لیڈ کررہا ہے لیکن قومی رہنما موجود نہیں ہے اگر آج کوئی آزادی پسند تنظیم یا پارٹی بلوچستان کی آزادی و بلوچ قوم کےلیے دشمن کے خلاف برسرپیکار جدوجہد کررہی ہے تو اس کا مطلب ہے کوئی بھی رہنما جس کا تعلق کسی بھی آزادی پسند تنظیم یا پارٹی سے ہو لیکن وہ بلوچستان کی آزادی و بلوچ قوم کےلیے جدوجہد کررہے ہیں۔

بعض دوست کہتے ہیں کہ آج بلوچ قومی تحریک غلط سمت پر رواں دواں ہے، بلوچ عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے بلوچ عوام جدوجہد سے کنارہ کش ہورہی ہے، بلوچ سرمچار سرینڈر کررہے ہیں۔ بلوچ سیاست غیر فعال ہے، بلخصوص بلوچستان سمیت پوری دنیا میں۔ دوستوں کیا تحریکوں میں عوام مایوس نہیں ہوتے؟ دوستوں تحریکوں میں اگر آج ایک سرمچار قربانی دینے کےلیے تیار ہے کیا کل وہ اپنی سوچ سے دستبردار نہیں ہوسکتا؟ دوستوں کیا تمام جہدکار آزادی کے پوائنٹ پر مرتے دم تک عمل پیرا رہینگے۔ کیا کچھ دوست مایوس نہیں ہوسکتے؟ کیا غدار نہیں بن سکتے ؟

ہم سب بخوبی واقف ہیں، یہ جنگ ہے، جنگ میں لوگ مایوس ہوتے ہیں تھک جاتے ہیں سوچ تبدیل ہوتی ہے۔ کیا جنگ میں عروج و زوال، نشیب وفراز نہیں آتے؟ کیا جنگ میں دشمن کو نقصان نہیں ہوتا؟ کیا جنگ میں دشمن کو فائدہ نہیں ہوتا؟

آج ہم کہتے ہیں ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں، کیا اختلافات ہونا غلط ہے؟ کیا اختلافات ہونے سے تحریک ناکام ہوگی البتہ اختلافات ہونے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ جی ہاں کچھ دوست جذباتی عدم برداشت جیسے زاويے پر عمل پیرا ہوتے ہیں نادان ہوتے ہیں، جو آگے چل کر سمجھ جاتے ہیں بلکہ اختلافات کو تضادات میں تبدیل کرنا غلط ہے کیونکہ اختلاف سے مسائل حل کی جانب جاتے ہیں اور تضاد سے مسائل بیگاڑ کی طرف جاتے ہیں آج بلوچ قومی تحریک میں بے حد کمزوریاں ہے اس سے کوئی ذی شعور انسان انکاری نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریک میں کمزوریاں ہیں، بلوچ جہدکار مایوس ہوجائیں۔ جدوجہد سے دستبردار ہوجائیں، کیا تحریک میں کمزوریاں ہیں، بلوچ عوام کو موبلائز نہ کریں؟ بلکہ ہماری زمہ داری ہے ہم اپنے آپ سمیت تمام کمزوریوں کا خاتمہ کریں، ایک نئے سرے سے حکمت عملی ترتیب دیکر اپنی اپنی زمہ داری، ایمانداری و مخلصی کے ساتھ سرانجام دیں۔

آج بلوچ قومی تحریک کے لیڈرز جس میں حیربیار مری بلوچ، براہمدغ بگٹی بلوچ، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، استاد اسلم بلوچ، گلزار امام بلوچ، عبدالنبی بنگلزئی بلوچ، قادر مری بلوچ، چیئرمین خلیل بلوچ، چیئرمین سہراب بلوچ، بانک کریمہ بلوچ و دیگر سے مخلصانہ گذارش ہے کہ آج ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ بلوچ قومی تحریک جس راستے پر رواں دواں ہے۔ اس میں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ آپس میں مل بیٹھ کر ایک الانئس کی شکل میں متحد ہوکر دشمن کو نیست و نابود کریں۔

یہ میرا ایمان ہے بلوچ قومی تحریک کے تمام لیڈرز چاہے وہ مسلح تنظیم سے وابستہ ہوں یا سیاسی تنظیم سے وہ آپس میں ایک مظبوط پایہ دار الائینس تشکیل دیں۔ وہ الائینس جو مکمل کامیابی کی جانب رواں دواں ہو۔ پاکستان، ایران، چین، کیا۔۔۔۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت بلوچ قوم کو شکست نہیں دیں سکتی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔