تم زندہ ہو شہید نواز جان – نازل بلوچ

508

تم زندہ ہو شہید نواز جان

نازل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو سبھی کو مٹی میں مل جانا ہے لیکن کچھی ہی ایسے عظیم انسان ہیں جو اس مٹی کا حق ادا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو کر جاتے ہیں۔ آج میں ایک ایسے ہی عظیم انسان کے بارے میں لکھ رہی ہوں کہ جنہوں نے اتنی کم عمر میں مجھے اپنے سوچ سے بہت زیادہ متاثر کیا۔ جی کر تو کوئی بھی کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اپنے قوم کے لئے مر مٹ جانے والا ہی عظیم کہلاتا ہے اور امر ہو جاتا ہے۔ ویسے تو میرا علم اتنا نہیں ہے کہ میں اس عظیم ہستی کے متعلق کچھ لکھ سکوں، انکی عظمت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ کم پڑ رہے ہیں لیکن یہ میری ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔

وہ ایک ایسا شخص تھا جو دیوانہ تھا اپنے مادر وطن کے لئے، اپنے قوم کے لئے۔ مجھے بچپن سے ہی انسانیت کی اور حق کے راہ میں چلنے کی تربیت دی گئی ہے۔ جب ہمارے علاقوں میں انقلاب نے سر اٹھا لیا تھا تو میں اکثر اپنے دوستوں سے یہی سنتی تھی کہ حق کے راہ میں جنگ اور قوم کا اپنے بقا اور اپنے ملک کے لئے جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ اپنے گھر کے بڑوں سے اکثر یہی سنتی تھی کہ اچھا کیا سرمچاروں نے یہ کیا وہ کیا تو میرے اندر بھی ایک جذبہ پیدا ہو گیا کہ میں بھی اپنے ملک و قوم کے لئے کچھ کروں۔ ہمارے علاقے میں جلسے منعقد کئے جاتے تھے میں بڑے شوق و ذوق سے جاتی تھی لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ گھر والوں کی جانب سے روک ٹوک کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ پھر میں یہی سوچتی رہتی تھی کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو حق کی راہ میں چلنے کی تربیت دیتے تھے؟ وقت ایسے ہی گزرتا گیا اور پھر ایک دن میری شہید نواز سے ملاقات ہوئی، میرے لئے وہ دن میری زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا، جسے میں کبھی بھی بھلا نہیں پاؤں گی، مجھے اس وقت پہلے سے ہی علم تھا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہم ایک غلام قوم ہیں۔ وہ کم گو شخص تھے ہمیشہ غلامی کے متعلق بات کرتے تھے۔ جب میری ان سے گفتگو ہوئی تو آزادی کی موضوع پر ہماری گفتگو جاری تھی کہ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ “میں مسجد جاؤں گا” حالانکہ اس وقت نماز کا وقت بھی نہیں تھا، تو میں ان کا مطلب سمجھ گئی کہ ان کا مقصد یہ راہ ہے (آزادی کی)۔ میں نے ان سے کہا کہ ” آپ اپنی ماں کے ایک ہی بیٹے ہو باپ کا سایہ بھی آپ پر نہیں رہا اگر آپ نے اس جدوجہد میں حصہ لیا تو اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے بعد آپ کی ماں کا کیا ہوگا ؟” تو وہ کچھ دیر کے لئے ایک دم خاموش ہو گئے، پھر انہوں نے مجھے شہید غلام محمد کا ایک شعر سنایا

” تو پہ منی واہ ءِ پدا مرواردیں ارساں مہ گوار
واھگ منی جند ءِ نہ انت ھست انت تئ زرد ءِ کرار

ساہ ءَ منی دلجم بہ بی مرگ ءِ لوارءِ کشت نہ کنت
من کہ نباں بازیں بنت ماں شادہاں گوں تو ھوار”

شعر کی تشریح کچھ اس طرح ہے کہ شہید غلام محمد اپنی ماں سے مخاطب ہوتے ہیں اب یہاں وہ جنم دینے والی ماں سے مخاطب ہیں یا اپنی دھرتی ماں سے یہ تو وہی بہتر جانتے تھے۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی دونوں ماؤں سے مخاطب ہیں۔ اس شعر کی پہلی سطر میں یہ ارشاد کیا گیا ہے کہ

“تو پہ منی واہ ءِ پدا مرواردیں ارساں مہ گوار
واھگ منی جند ءِ نہ انت ھست انت تئ زرد ءِ کرار”

اسکا مفہوم یہ ہے کہ اگر میرے ساتھ کچھ ہو جائے یا صاف لفظوں میں اگر بیان کیا جائے کہ اگر مجھے شہید کیا جائے تو آپ میری شہادت پر اپنے قیمتی آنسو نہیں بہائیں گی اور یہ کہ میری قربانی میں ہی تجھ کو قرار آئے گا، یعنی میرے جان کی قربانی آزادی کی جدوجہد کو برقرار رکھے گا اور عنقریب ہم اس جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں گے۔

“ساہ ءَ منی دلجم بہ بی مرگ ءِ لوارءِ کشت نہ کنت
من کہ نباں بازیں بنت ماں شادہاں گوں تو ھوار”

اس سطر کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ آپ میری زندگی کی فکر نہ کریں، موت کی لُو میری زندگی کو جلا کر مار نہیں سکتی۔ انکا مقصد یہ تھا کہ مجھے موت نہیں مار سکتی کیونکہ میں ایک ایسے مقصد کے لئے قربان ہو جاؤں گا کہ میں تو مر ہی نہیں سکتا اور نہ تو میری سوچ مر سکتی ہے، نہ ہی میری جدوجہد، جب تم آزاد ہو جاؤ گی یا یوں کہہ لیجیے کہ جب یہ سر زمین آزاد ہو جائے گی اس ظلم سے اس غلامی سے تب میں خود تو نہیں رہوں گا لیکن میرے بعد بہت سے لوگ ہوں گے (بلوچ قوم) جو اس جشن، ہر خوشی میں تمہارے ساتھ ہوں گے۔ پھر شہید نے کہا کہ ” اگر مجھے ہزار بار بھی زندگی ملے تو اس سرزمین کے لئیے قربان کر دوں گا۔ میں بہت خوش قسمت ہوں گا اگر مجھے اپنے مادر وطن کا حق ادا کرنے کا موقع ملا ۔” شہید ایک ایسے جذبے سے گفتگو کر رہے تھے کہ میں ان کا یہ انداز دیکھ کر حیران رہ گئی تھی کہ اس عمر کے نوجوان تو پیاروعشق کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور ایک نواز جان ہیں کہ جن کا پیار، عشق، جنون دیوانہ پن، جو کچھ بھی ہے بس یہی سرزمین ہے، ہماری سرزمین ہمارا بلوچستان۔ اس دوران مجھے چین نہ آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ “اگر کوئی کچھ کرنا چاہیے اپنے ملک کے لئے تو ؟” تو انہوں نے کہا کہ “ماں کو راضی کرنا لازمی ہے اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو پہلے ماں کو راضی کرو۔” تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ کی والدہ محترمہ راضی ہیں؟ ” انہوں نے کہا کہ “جب میں چھوٹا تھا تو اکثر ماں مجھے کہا کرتی تھیں کہ بڑے ہو کر سرمچار بننا لیکن جب میں بڑا ہوا تو میں نے اماں سے کہا کہ مجھے ملک کے جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے اجازت دیں تو انہوں نے کہا بیٹا مت جانا”۔

شہید کی آنکھیں مجھے بہت پسند تھیں، ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے انہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور سہا ہے۔ پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔ مجھے اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ در حقیقت وہ اپنے جدوجہد کی سفر میں روانہ ہو رہے ہیں، اس کے بعد انکی کوئی خبر نہیں ملی اور پھر اچانک 21 اپریل 2015 کو مجھے خبر ملی کہ شہید نے دشمن سے انتہائی بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

پہلے تو میں حیران رہ گئی کہ شہید نے تو مجھ سے کہا تھا کہ ان کی والدہ محترمہ راضی نہیں ہیں اور وہ اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن خبر یہ آئی ہے کہ بی ایل ایف کے کمانڈر نواز جان عرف دیدگ بلوچ 5 سال سے آزادی کی جنگ میں شامل تھے اور دشمن کو ہمیشہ شکست دیتے تھے۔ جب میں شہید کے جنازے پر پہنچی تو شہید کی والدہ محترمہ نے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ بہایا اور اپنے بیٹے کو سپرد خاک کرتے دیکھ انہیں الوداع کہہ رہیں تھیں۔

میں سلام پیش کرتی ہوں شہید کی والدہ محترمہ کو اور انکی صبر کو کہ شہید انکا ایک ہی بیٹا تھا۔ شہید کی بہنوں نے خوشی خوشی اپنے بھائی کو آخری خواب گاہ کی طرف رخصت کیا۔ شہید کے دوستوں نے بڑے شان سے یہ کہا کہ “شہید بے شک اب ہمارے بیچ نہیں ہیں، ہمیں اس بات کا دکھ تو بہت ہے ہمارے دلوں میں آگ لگی ہوئی ہے لیکن ہم پشیمان نہیں ہیں کیونکہ انکی سوچ اور انکی ملک و قوم کے لئے وہ جدوجہد ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہید زندہ ہیں اور وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔”

شہید نواز جان تمہاری بہادری کو سلام، تمہاری دیانتداری کو سلام تم آج بھی زندہ ہو، اس قوم کی ہر نوجوان کی سوچ میں، تم آج بھی زندہ ہو ہماری کوششوں میں اور تم ہمیشہ زندہ رہوگے تمہارا وجود کبھی مٹ نہیں سکتا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔