بلوچ خواتین پر ظلم وستم کی انتہا -محسن بلوچ

790

بلوچ خواتین پر ظلم وستم کی انتہا

محسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

پاکستان بلوچوں پر 70سالوں سے ظلم وزیادتی کررہا ہے. مگر بلوچ قوم اپنے حقوق کیلئے اپنے سروں کا نظرانہ پیش کرنے میں پیچھے نہیں ہٹے ہیں. اپنے جدوجہد کو ایک منظم طریقے سے آگے لے جارہے ہیں۔ شکست خوردہ پاکستانی فوج بلوچ قومی جد وجہد کو کاونٹر کرنے کیلئے اپنے ہر طرح کے منصوبے بروئے کار لارہا ہے۔ مگر بلوچ قوم ان حربوں سے پہلے سے واقف ہے. جن قوموں نے اپنے جہد آزادی کی خاطر جنگ لڑی ہے. ان پر قابض نے طرح طرح کے ظلم ڈھائے ہیں. مگر انہوں نے راستے سے راہ فرار اختیار نہیں کی ہے.

پاکستانی فوج بلوچ سیاسی ورکروں کو کمزور کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کرتا رہا ہے ہے. سیاسی کارکنوں کا اغوا ہونا اور انکے قتل عام ہو نے کا سلسلہ جاری ہے. اب ریاست نئی حکمت عملی کے ساتھ انکے خواتیں بچووں اور رشتہ داروں کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کرچکا ہے. یہ عمل 1970سے جاری تھا. مگر 2005کو اس سلسلے میں شدت آئی، اسی دوران خاتون ٹیچر زرینہ مری کو اغوا کرلیا گیا، اسکے بعد سے خواتین کے ساتھ انسانیت سوز کارناموں کی شروعات کی گئی کیونکہ اس وقت جہد آزادی ایک مضبوط روپ دہار چکا تھا.

پاکستان اپنے پُرانے طریقہ کاروں کا استعمال کرنے کی کوشش میں لگا رہا جو بنگلہ دیش میں سر انجام دے چکا ہے. بنگلہ دیش کی عورتوں پر ہر طرح کا ظلم وزیادتی روا رکھا گیا۔ انکے ساتھ انسانیت کے تمام حدود پار کرکے غیر انسانی عمل کیا گیا. اب بلوچستان میں وہی عمل شروع کیا گیا ہے. اب بلوچ سیاسی ورکروں کوڈرا نے کیلئے وہی حربے استعمال ہو رہی ہیں. بلوچ سیاسی ورکروں کی ماں بہنوں اور انکے رشتہ داروں کو اغوا کرکے غائب کیا جا رہا ہے، یہ ایک انسانیت سوز واقعہ ہے۔ 2016کو خلیل ساچان کے اہلیہ کو انکے چھ ماہ کے بچے کے ساتھ اغوا کیا گیا، اسکے بعد کوئٹہ سے بلوچ سیاسی استاد ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کے اہلیہ اور اسلم بلوچ کی بہن کے ساتھ دیگر بچوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا. مشکے میں بھی ایسے بہت سے واقعے رونما ہو ئے ہیں.

22جولائی کو نورملک اور دو بیٹیوں کے ساتھ دس سالہ ضمیربلوچ کو بھی اغوا کرکے اپنے کیمپ میں منتقل کر دیا گیا. جو تاحال لاپتہ ہیں. آواران میں بھی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں. اغواء کے بعد تشد کرکے انہیں بعد میں رہا کیا گیا، جن کونا میڈیا میں جگہ ملی ہے، ناکہ سوشل میڈیا میں کو ئی نیوز آیا ہے. کیونکہ ایسے واقعات اب بلوچستان میں معمول بن چکی ہیں. لیکن ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دنیا کو آگاہ کریں ڈیرہ بگٹی سے بھی بلوچ عورتوں اور بچوں کو اغوا کرکے انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کر کے انہیں غائب کیا جاتا رہا ہے. نواب برھمداگ بگٹی کی بہن زامر کو انکی بچی کے ساتھ کراچی میں قتل کیا گیا۔

8اکتوبر 2018کوپاکستانی فوج نے آواران کے علاقے جھاؤ ٹوبوکڈ سے زمیندار بشیر احمد ولد محمد حسین، رمضان ولد بادین، ماہ جان ولد سیلمان لال خاتون ولد غلام محمد، سیمنہ ولد علی مراد، خیر جان ولدمحمد حسین اور لال بازار سے بھی بلوچ فرزندوں کو اٹھا کر غائب کیا گیا.جن کے نام مکو ولد اشرف ، اشرف ولد محمد رشید ،مجید ولد نور محمد کو اغوا کیا گیا۔ اسی طرح پیر اندر میں شہید سولان عرف کمانڈو کی بیوہ اور اُس کے چچا کو پاکستانی فوج نے اغوا کیا.

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ بلوچ سیاسی ورکروں کے رشتہ داروں کواغوا کیا گیا ہے. کچکول علی ایڈوکیٹ کے بیٹے کواٹھا کر غائب کیا گیا بعد میں انکے بھانجے کو بھی اٹھایا گیا، غفار لانگو کے بیٹے کو بھی اٹھایا گیا، 27اگست کو بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیرمین کمال بلوچ کے بھانجے صادق بلوچ کو انکے شادی کی تقریب سے اٹھا کرغائب کرنا یہ سارے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں. کہ سیاسی ورکروں کو کمزور کرنے کے طریقہ کار ہیں. پاکستان کی فوج اور isi کا یہ ایک حکمت عملی ہے. اور یہ انکی شکست و بوکھلاہٹ کی ایک نشانی ہے، جو سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ انکے فیملی پر تشدد پر اتر آئیں ہیں. تاکہ سیاسی ورکر خوفزدہ ہوکر اپنے منتخب کردہ راہ سے یکطرف ہو جائیں.

اب اس لیئے بلوچ خو اتین کے ساتھ اس طر ح کا رویہ روا رکھا جارہا ہے. تاکہ بلوچ جہد کاروں کو کمزور کر سکیں، اب بلوچ قوم کے ہر فرزند کو یہ سوچنا چاہیئے. کہ ہمارا دشمن کس حد تک جا چکا ہے. تو کیو ں ہم اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کر تے ہیں. کیا ہمارے خو اتیں کرد، تامل، جہد کا روں سے کمزور ہیں. وہ با قاعدہ عملی جد وجہد میں شامل نہیں ہو تے ہیں. یا تو ایسا نہیں اب تک ہما ری حکمت عملی کمزور ہیں. بلوچ خواتین کو اب سمجھنا ہو گا کہ وہ بھی بلوچ جہد کے ساتھ عملی طو ر پر شامل ہو جائیں تاکہ ہم اپنی دشمن کے روز زد میں نہ آجائیں تاریخ میں بلوچ خو اتین کی جدوجہد کو اہم مقام حاصل ہے. لیکن آج کمزور دِکھائی دیتی ہے، ہمیں عملی بنیاد پر دشمن کے خلاف ایک صفحے پر یکمشت ہوکر کمر بستہ ہو نا چاہیئے.

بلوچ سر زمین کی تہذیب اور روایات کو پاکستانی فوج پاؤں تلے روند رہی ہے. انہوں نے ہماری عزت نفس کو مجروح کی ہے. اس اہم گھڑی میں کچھ تاریخی فیصلہ کر نا ہو گا، جس طرح شہید ریحان بلوچ نے اپنی جان کی قربانی دی، اس طرح بلوچ خواتین کونئی راہ کا انتخاب کرنا چاہیئے قوم کے ساتھ کوئی راستہ نہیں ہمیں خو ف کے بدلے میں تاریخی کام سرانجام دینا ہوگا۔ اس وقت بلوچ جدوجہد نے تاریخ رقم کی ہے.

بلوچ لیڈر اس پہلو پر باریک بینی سے جائزہ لیں، یہ وقت کی اہم ضر ورت ہے بلو چ کے باشعور بچیاں اور خواتین کو بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بلکہ انقلابی فیصلے کریں یہی فیصلے بلوچ کے مستقبل کو روشن کرنے کے ضامن ہونگے. اب بلوچستان میں لیلیٰ خالد جیسے عظیم رہنما پیدا ہونے کی ضرورت ہے۔

دشمن کی عمل کو کاونٹر کرنے کی ضرورت ہے. نہ کہ ڈر ہونا چاہیئے بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ مسقتل مزاجی کے ہمراہ دشمن کو بلوچستان سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے. وقت کی اہم ضرورت ہےکہ وہ اپنے غلامی کے خلاف اپنا اواز اٹھائیں، بلوچ عورتیں بھی کسی دوسرے قوم کے خواتین سے کم نہیں ہیں. وہ جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے ننگ و ناموس کا کیسے خیال رکھنا چاہیئے. اور کیسے خود کوعظیم کام کی خاطروقف کرنا چاہیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔