انقلابی راہیں – خالد بلوچ

334

انقلابی راہیں

خالد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بعض ماہر نفسیات اس بات پر اتقاق کرتے ہیں کہ انسان مفاداتی حیوان ہے، وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ اپنے انفرادی خواہشات کو حاصل کرنے کے لیے خود غرضی کا سہارا لیکر انسانیت سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اپنے ذاتی خواہشات کو پورا کرتا ہے۔

لیکن معذرت دوستوں میرے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ دنیا کے تمام انسان انفرادیت پسندی کے حامل ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو چند ایسے ہستیوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنی انفرادی خواہشات کو قربان کرکے اس سوچ کو ہی غلط قردار دیا کہ انسان مفاداتی حیوان ہے اگر واقعی انسان مفاداتی حیوان ہوتا تو دنیا میں کبھی بھی انقلاب نہ آتا اور نہ ہی کوئی برابری کی بات کرتا اور نہ ہی مظلوم و محکوم سامراجی طاقتوں کو چیلنج کرنے کے بارے میں سوچتے اور نہ ہی کہیں انقلاب برپا ہوتا۔

اب لفظ انقلاب کا ذکر آیا تو الفاظ ساتھ دینے کو تیار نہیں کیونکہ انقلاب حقیقتوں کا سرچشمہ ہے اس میں جھوٹ اور فریب کی کوئی گنجائش نہیں جب موضوع انقلابی کامریڈوں پر آتا ہے۔ تو دل و دماغ میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں آخر انقلابی سوچ رکھنے والے انسانوں پر لوگ کیوں فخر کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال چی گویرا کی ہے جس کو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ چی کی زندگی انسانیت کی بھلائی تھی۔

میرے تحریر کا مقصد ایک ایسے نوجوان کی زندگی کے بارے میں ہے جو اپنی زندگی اجتماعی مفادات کے لئے قربان کرنے کو تیار تھا۔

اس انسان دوست کے کرادر کو بیان کرنے سے پہلے میں سقراط کے اس قول کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سقراط کہتا تھا کہ اصل زندگی جو علم حاصل کرنے میں گذاری جائے حقیقی معنوں میں وہی زندگی حقیقی زندگی ہے۔ سقراط نے درست کہا تھا لیکن بلوچ قوم ایک ایسے حالات جنگ میں مصروف ہے جہاں علم حاصل کرنے کے جرم میں زندانوں میں قید کیا جاتا ہے۔ بقول انقلابی سنگت نودان بلوج کے انسانوں کو غائب کرنا کوئی نئی بات نہیں لیکن بلوچستان میں اسکے معنی دنیا سے مختلف ہے، یہاں غائب ہونے کا مطلب اپنی زندگی سے رخصت ہونے کے برابر ہے۔ بقول عزت جان کے لاپتہ افراد کے درد کا احساس لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اب تک ایسا کوئی الفاط ایجاد نہیں ہوا جو لاپتہ افراد کے درد کو کم کرسکے۔ لاپتہ افراد کا درد ایک اجتماعی درد بن چکا ہے۔ ان لاپتہ افراد کا ایک ہی جرم تھا انہوں نے فرسودہ سماج کے بوسیدہ نظام کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے اپنی زندگی کو قربان کردیا۔

ان میں ایک شبیربلوچ تھا۔ ان کو کم عمری میں ہی بلوچ قوم کی محرومیت کا احساس ہوا2008 میں 15 سال کی عمر میں بی ایس او (آزاد) کے پلٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ شبیر کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا آزاد بلوچستان کی خاطر جدوجہد کرکے ایک پرسکون معاشرہ قائم کیا جائے۔ ایک بار شبیر نے کہا تھا کہ میں اپنے ہی حق کے لیے کیوں مروں حق بھی میرا اور زندگی بھی میری لیکن شبیر بلوچ قوم کا دشمن انسانی تاریخ و تہذیب سے ناآشنا ہے اگر اس ریاست کو انسانی جان کی قدر ہوتی تو یہ وحشی ریاست بنگلہ دیش میں ظلم کا بازار گرم نہیں کرتا۔ تاریخ میں اہم ترین کامیابیاں پرانے انداز فکر کو ختم کرنے اور اس سے ناطہ توڑنے کے نتیجہ میں سامنے آئی ہیں۔

شبیر جان نے بلوچ سیاسی کارکنوں کو احساس دلانے کی خاطر بی ایس او آزاد کے تنظیمی کاموں میں ہر وقت مصروف رہا، وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ زندگی آزاد ہو تو زندگی کہلاتا ہے غلامی میں زندگی جہنم کا پس منظر پیش کرتاہے۔ آزاد ی کے اس جزبے اور شعور نے شبیرکو اس قدر پختہ کیا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا مجھے پختہ یقین ہے کہ اس ظلم و جیر کے خلاف بولنے کی وجہ سے مجھے سخت حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ شبیر کو دوسال کا عرصہ ہوچکا ہے وہ ریاستی عقوبت خانوں میں تشدد برداشت کررہاہے۔ آج بحیثیت سیاسی کارکن مجھے فخر ہے میں ایک انقلابی طلبا تنظیم کا رکن ہو جس کے راھشون زندانوں میں انسانیت سوز اذیت برداشت کررہے ہیں لیکن قومی تحریک سے دستبردارہونے کو تیار نہیں، اس لیئے ایک ماہر نفسیات آسٹروی اپنی کتاب میں کہتا ہے ذہنی کیفیت جسمانی اذیت کو قابل برداشت بنادیتی ہے۔ جب نازی جرمن قید خانوں میں ایک ماہر نفسیات فرینکل نامی یہودی نے انتہائی تکلیف دہ اور کربناک صورتحال میں بھی اپنے آزادی کے احساس کو مرنے نہ دیا۔

شہید کمبر چاکر کہتا ہے ہمیں ریاستی ٹارچر سیلوں میں دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم اپنی قومی آزادی سے ایک اینچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

اگر انسان کا ارادہ پختہ اور مضبوط ہو تو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس عظیم نوجوان کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ آزادی بغیر قربانی کے نہیں ملتی۔ لہٰذا بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف ریاست کی جارحانہ کاروائیاں عالمی قوانین اور اصولوں کے منافی ہیں۔ آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان ریاستی ٹارچر سیلوں میں قید ہیں ریاست اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ ظلم اور جبر سے قومی تحریک کمزور کیا جائے گالیکن بلوچ سیاسی کارکنوں کی پختہ شعور نے عقوبت خانوں میں ریاستی تنخواہ دار ائی ایس آئی کو بوکھلاہٹ کا شکار بنایا ہے۔