طنزیہ انشاء پردازی – برزکوہی

377

طنزیہ انشاء پردازی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

ناسمجھ چین، بے وقوف امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو اس کے علاوہ عیاشی میں ہروقت مدہوش سعودی عرب، وارلارڈز اور طالبان کا شنکجے میں غرق افغانستان، سہما ہوا بھارت اور سہماسہما اقوام متحدہ، مذہبی جنونیت و منافرت کا شکار معاشی طور پر بدحال اور تباہ حال ایران، دنیا سے بے خبر اور پاگل اسرائیل، ٹوٹا ہوا روس، شراب شباب اور کباب میں غلطاں عربوں اور پسماندہ جاہل اور وحشی افریقیوں، اندھے، بہرے، احمق، بزدل، نالائق پاکستان اور آئی ایس آئی۔

دوسری طرف بلوچ قوم 11 ہزار سالہ تاریخ کا مالک تقریباً 750 کلو میٹر پر محیط معاشی، سیاسی، تجارتی اور عسکری حوالے سے لاعلم اور بیگانہ دنیا کے لیئے گیٹ وے یعنی بحرِ بلوچ یا گرم پانی یعنی ساحل سمندر گوادر اور دیگر قدرتی وسائل سونا، چاندی، ایلومینیںم، کرومائٹ، تانبا، سیسہ، جست، لوہا، مولی بڈنم، یورینیم، ٹنگسٹن، پلاٹینم، ٹائی ٹینیم، ذِرکن، اینٹی منی، ایلم ایس، بسٹاس، بیرائٹ، فلورائیٹ، جپسم، ڈولومائٹ، ماربل، آنکس، سرپینٹین، گرینائٹ، سنگ مرمر، ڈائیورائٹ، گیبرو ، بسالٹ , رائیو لائٹ، کوارٹزائٹ، سربینٹین، پکچرمارل سٹون، ریفل ، لائم اسٹون، ماربل ابریسوِز گارنٹ، پامس، پارلائٹ، بسالٹ، نمکیات بوریکس ، بوریٹس، سلفائڈ کاربونیٹس، گندھک، فرٹیلائزر، نائٹرییٹ فاسفیٹ، میگنیشیم، ذرد آکر ٹالک میگنی سائٹ، مینگنی سیلسٹایٹ، جم سٹونز، گارنٹ بلّور یا سنگ مردارعقیق فیروزہ کری سوکولامالاکائٹ، ذِرکن ، جیڈ ، جاسپر، لاپس لزولی، سٹ رین، آئیڈوکریز کرسوپریز اور ایمی تھسٹ، سرمہ، گیس، پیٹرول وغیرہ وغیرہ کے وارث و مالک بلوچ قوم، بلوچ قومی قیادت اور بلوچ جہدکار جو دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور سیاسی و ڈیموگرافک معاشی و فوجی مفادات اور خواہشات سمیت دنیا کی مسخ شدہ گلوبل شکل اور اناڑی کھلاڑیوں کی اناڑی گریٹ گیم( یعنی کرکٹ اور فٹبال )جیسے گیم سے بخوبی واقف، لمحہ بہ لمحہ باخبر تجزیہ و تبصرہ غور و فکر کے بعد لگ بھگ 20 سالا لانگ ٹرم پالیسی و حکمت تیار اور دستیاب کرکے انتہائی ہنرمندانہ انداز اور موثر حکمت عملی و منصوبہ بندی اور لانگ ٹرم پالیسی کے تحت سائینٹفیک بنیادوں پر جہدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔

بلوچ اپنی قومی آزادی یعنی بلوچ قومی ریاست کی بحالی کی حصول کے خاطر جدوجہد کررہے ہیں لیکن دوسری طرف غیر مہذب دنیا، ریاستیں اور اقوام، علم و شعور ٹیکنالوجی سے محروم پسماندہ جہالت کا شکار بلوچستان اور بلوچ قوم سے بے خبر اپنی فرسودہ رجعتی و مذہبی، قبائلی رسم و رواج، عقائد، سطحی سوچ، خیالات میں قید ہوکر ابھی تک اپنے قبائل اور قبائلی ذیلی برانچ ( ذی و ٹکر) پرسینہ تان کر فخر کررہے ہیں۔ اپنے نام کے آگے پیچھے و دائیں اور بائیں ٹکری، وڈیرہ، سردار و نواب، خان، میر، معتبر، ملک وغیرہ کے سننے سے منہ میں پانی لیکر خوشی سے جھوم و چیخ اٹھتے ہیں۔ بس ہر وقت بیٹھ کر اپنے باپ دادا کی بہادری اور عقلمندی کے داستانیں سناتے ہیں۔ اور تو اور یہ بے وقوف اور احمق دنیا کے اقوام ابھی تک اپنے پسماندگی، جہالت، بے علمی اور بدحالی کا کبھی کبھبار رونا روکر موردالزام بھی خود کو نہیں قسمت اور مقدر کو ٹہراتے ہیں اور مولویوں بزرگوں، فقیروں اور درباروں میں جاکر دعا، خیرات، ذکوات کے ذریعے اپنے قسمت اور مقدر کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ ابھی تک یہ بدبخت جسمانی و اعصابی ذہنی اور نفسیاتی امراض کا علاج و نجات تعویز گنڈے، دم، درود، خیرات، پیر و فقیر اور دعا سے کرواتے ہیں۔ یہ اس حد تک پسماندہ اور جاہلیت کا شکار ہیں کہ بچوں کی طرح کپڑے، کھانے پینے، جوتے، موبائل، لیپ ٹاپ، سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، گھڑی وغیرہ کے لیئے ایسا ضد اور غصہ کرتے ہیں کہ جیسے ایک معصوم بچہ دوسرے معصوم بچے سے اپنے کسی کھلونے کے چھِن جانے پر کرے۔

یہ غیر مہذب دنیا اور اقوام ابھی تک ان سوچوں میں مبتلا ہیں کہ میں ناراض ہوں، کیونکہ انہوں نے مجھے حال حوال یا سلام نہیں کیا، میرا فون نہیں اٹھایا، مجھ سے پہلے کھانا کھایا، مجھ سے صلاح و مشورہ نہیں کیا ہے۔ فیسبک پر میرا فوٹو لائیک نہیں کیا ہے، پروفائل پر کیوں فوٹو نہیں لگایا، ٹویٹ کو ریٹویٹ نہیں کیا، صفت و ثناء خوانی کیوں نہیں کرتا ہے، تنقید کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، یہ میری شان و شوکت کے خلاف، میں عظیم ہوں یہ تمام چیزین میرے عظمت کے خلاف ہیں، میں نے اس قوم کے لیئے سب کچھ کیا، اپنا زندگی دیا، احسان کے بدلے میرا معاوضہ دیا جائے، مجھے سرپر بٹھایا جائے، میں نے اپنے گھربار، خاندان، قبیلے، سردار و نواب سب کو چھوڑدیا ہے، اتنا بڑے قربانی اور محنت کے بعد میری تمام ذاتی خواہشات اور مطالبات ہر وقت اور بروقت پورے ہونا چاہئیں۔

وگرنہ انتقام، ضد، دشمنی اور رسوائی کرونگا۔ جھوٹا مصنوعی تعریف، خوشامدی ہو صحیح ہے، ہمیشہ میرے ہر خیال، ہر مزاج اور ہر سوچ اور اقدام کی تعریف اور تقلید فرض ہے، نہیں تو کفر اور گناہ کبیرہ ہے، میرے خاندان نے قربانی دیا ہے، مجھے احسان کے بدلے سب کچھ دینا چاہیئے۔ یہ میرا حق ہے، نہیں تو ناراض، مخالفت یہ اچھے رویے نہیں ہونگے، ہم برداشت نہیں کرینگے، پھر آخری حد تک دشمنی ہوگا۔ میرے مقام، میرے نام، میرے دستار کا مسئلہ ہے۔ میں گم و گار ہونگا، اس کے لیئے مجھے محنت اور کردار نبھانے کے لیے آخری حد یعنی انتقام اور ذاتی دشمنی تک اگر جانا پڑے میں جاسکتا ہوں، تم کو اور خود کو رسوا اور زوال کرونگا، مگر کرونگا ضرور اور دیکھو یہ بدبخت پسماندہ جہالت کے شکار اقوام کو ابھی تک آمنے سامنے بیٹھ کر منطق، دلیل، علمی بحث سے بھاگ کر جھوٹ الزام منافقت کی حد تک پشت پیٹ کسر پھسر، ابھی تک دادی ماں جیسے حرکتوں سے بعض نہیں آتے ہیں۔

کجا بلوچ قوم، کجا بلوچ قیادت و جہدکار اور کجا غیر مہذب اقوام اور غیرمہذب دنیا، پھر کیا خاک بلوچ قوم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یار آپ دیکھو بلوچ قیادت اور جہدوکاروں کو اپنے موضوعی حالات پر سوفیصد دسترس باعلم اور باخبر ہوکر کس طرح اور کیسے بے وقوف امریکہ، چین، سعودی، برطانیہ، موساد، سی آئی اے، را، کے جی بی وغیرہ اور احمق تھنک ٹینکس والوں کی پلاننگ حکمت عملیوں اور منصوبہ بندیوں سے باخبر اور واقف ہیں، کس طرح کیسے رٹہ بازی سے ہٹ کر خوبصورت اور جامع انداذ میں تبصرہ اور تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کرکے بلوچ قوم اور بلوچ قومی جہد کو واضح اور لانگ ٹرم پروگرام اور پالیسی مرتب کررہے ہیں۔

پھر کیا خاک یہ بھڑک باز، بے وقوف آکر ہمیں مزید غلام بنایئنگے، اپنی گری ہوئی سطحی اور محدود سوچ کے بل بوتے یہ خاک گودار کو قبضہ اور سی پیک کو کامیاب کرینگے، یہ خاک سیندک، ریکوڈک کو لوٹ لینگے۔ یہ خاک سوئی سے گیس اور کوہستان مری سے قدرتی وسائل گیس اور تیل نکال دینگے۔ یہ خاک بلوچ قوم کو کالونائز کرسکتے ہیں۔ بلوچ قوم کے پاس ایک مضبوط ثقافت، مختلف ترقی یافتہ زبان، بہترین اکیسیویں صدی کے تقاضات کے مطابق رسم و رواج، روایات، قبل از مسیح قدیم اور قابل فخر تاریخ، جس کے مقابلے میں دنیا کے پاس خاک ہے۔ کچھ نہیں صرف بے شعوری جہالت سطحی سوچ کے علاوہ۔

ان عبارات پر طنزیہ انشاء پردازی کا گمان لیں یا حقائق سے پرولیں، بہرحال معروض بھلے کچھ اور ہی گواہی دیتی ہولیکن ہمارے دعویں اور رویئے ان عبارات سے قطعی بے میل نہیں ہیں۔ شخصے تحریک کو مفعول یہ کہہ کر بنادیتا ہے کہ جب تک ہم جہاں دید نا ہوں، عالمی دستورالعمل کے صفحے نا چاٹ لیں تب تک اپنی مٹی چاٹنا اور اسے خون و پسینے سے تر کیئے رکھنا بے معنی ہے۔ اب یوں پھر تحریک و طفیلی ایک دوسرے میں یوں مدغم ہوکر ہم معنی ہوگئے، جیسے ایک ہوں۔

ویسے بھی سچ کہتے ہیں دو مقابل قوتوں یا مختلف قوتوں کے درمیان ہمیشہ سوچوں اور رویوں کی موازانہ ہوتا ہے، کس کی سوچ و اپروچ کہاں اور کس سطح پر کھڑا ہے، پھر ناکامی و کامیابی، زوال و عروج، خوش قسمتی اور بد بختی کے فیصلوں کی شروعات وہاں سے ہوتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔