شبیر بلوچ استقامت کی علامت ۔ توارش بلوچ

490

شبیر بلوچ استقامت کی علامت

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

‎شبیر نے ایک ایسے وقت میں جہد آزادی کا نعرہ بلند کیا جب ریاستی فورسز بلوچستان کے کونے کونے میں جبر و بربریت اور اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور قابض فوج انسانیت کی دھجیاں اڑا رہا تھا لوگوں کی گمشدگی عروج پر تھیں جو ہنوز بدرجہ اتم جاری ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں آئے دن مل رہے تھے۔ دشمن قومی تحریک کیلئے اُٹھنے والے ہر آواز کو اپنی طاقت سے دبا رہی تھی، لیکن شبیر نے ان سب کا پرواہ کیے بغیر اس مشکل راستے کا شعوری طور پر انتخاب کیا اور انقلابیوں کی ٹولی میں شامل ہو گیا، جدوجہد کا آغاز بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے کیا اس وقت بی ایس او کے تقریباً درجنوں سنگتوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں جبکہ کئیوں کو پس زندان کیا گیا تھا لیکن شبیر ایک مکمل انقلابی تھا اور ایک انقلابی کیلئے حالات معنی نہیں رکھتے بلکہ وہ مقصد معنی رکھتا ہے جس کیلئے وہ جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔

‎شبیر بلوچ اپنی کسان عمری میں تنظیم سے وابستگی اختیار کرتا ہے، جدوجہد آزادی کا جزبہ ایسا ہے کہ یہاں آپ اپنی عمر کا لحاظ نہیں کرتے بلکہ جب وہ جذبہ آپ کے اندر سمو لیتا ہے تو آپ جدوجہد کا حصہ بنتے ہیں، جس کی مثال امریکی جنگ آزادی کے دوران سپاہی جوزف پلمب مارٹن تھے جنہوں نے 15 سال کی عمر میں بطور ایک سپاہی امریکہ کی آزادی کیلئے جدوجہد کی اور بےبہا مشکل و تکالیف کا سامنا کیا جوزف اپنے پیرا سالی میں ایک کتاب the life of a soldier لکھتا ہے جہاں وہ دوران جنگ پیش آنے والے تمام مشکلات اور مصائب کے متعلق تفصیلی گفتگو کرتا ہے اس کا دوسرا مثال انڈیا کی جنگ آزادی کا عظیم سپاہی khudiram Bose ہیں جن کی عمر تقریباً پندرہ سال کے ہوتا ہے، جب وہ گوریلا بن جاتا ہے اور انگریز کے خلاف بھارت کی آزادی کیلئے جدوجہد کرتا ہے۔ وہ محض 18 سال کا ہوتا ہے جب اُنہیں پھانسی دی جاتی ہے اُس کے ہمراہ کئی دوسرے ساتھی بھی گرفتار ہوتے ہیں لیکن وہ حملوں کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے اور باقی دوستوں کو بےگناہ قراد دیتا ہے۔ اقرار جرم کے بعد اُسے پھانسی کی سزا سنایا جاتا ہے آخری میں وکیل اُسے پوچھتا ہے کہ اپنے صفائی میں مزید کچھ بولنا چاہو گے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ مجھے کچھ وقت دو میں جج کو بمب کیسے بناتے ہیں سکھانا چاہتا ہوں۔ شبیر بھی انہی کا طرح عمر میں چھوٹا لیکن جدوجہد سے فکری وابستگی رکھتا تھا شبیر نے اپنی زندگی قومی وقار کی خاطر وقف کر رکھا تھا تنظیم کے کاموں میں وہ ہمیشہ پیش پیش تھا کبھی وہ بلوچستان کے سرسبز و سرد علاقے شال میں موجود تھا، تو کبھی وہ کولواہ کے ڈاک میں کبھی وہ تربت کے سخت گرمی میں دوستوں کے ہمراہ جدوجہد میں مصروف عمل تھا، شاید ہی بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ بچا ہو جہاں شبیر نے تنظیمی پروگرام کو نہ پھیلایا ہو۔

‎شبیر سے میری وابستگی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہی ہوا، وہ بہت ہی خوش مزاج انسان تھا اُس کی آواز میں بہت مٹھاس تھا بلوچ سیاست پر گہری نظر رکھتا تھا اور کتاب پڑھنے کا شوقین تھا اُس کا اور کتابوں کے بیچ ایک رشتہ جڑ چُکا تھا، بحث و مباحث کا حامی نوجوان تھا۔ جب بھی آپ اُس کے ساتھ بیٹھتے وہ ضرور کسی موضوع پر بات شروع کرتا۔ میں جب بھی اُسے حال حوال کیلئے سلام دعا کرتا تو اُس کا دوسرا سوال مجھے ضرور یہ ہوتا (کُجام کتاب ءَ وانگ ءَ ئے؟) کون سا کتاب پڑھ رہے ہو؟ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت ہی مخلص و محنتی ساتھی تھا 2016 میں ہمارا ورکشاپ کا پروگرام رمضان کے مہینے میں ہو رہا تھا۔ ہمیں 11 بجے کا ٹائم دیا گیا تھا۔ جب ہم ٹائم پر پہنچے تو شبیر پہلے سے ہی وہیں پر تھا۔ کچھ دوستوں نے آنے میں بہت دیر کر دی اور ہمارا پروگرام 11 بجے شروع ہوا۔ دیوان شروع کرنے سے پہلے اُس نے کہا مجھے کل رات بہت کام تھا 5 بجے تک میں نے اپنا کام ختم کیا لیکن میں نہیں سویا کہ میں کہیں دیوان سے لیٹ نہ ہو جاؤں(اُس کے سرخ سرخ آنکھوں سے پتا چل رہا تھا کہ وہ کل رات سے نہیں سویا ہے) لیکن آپ لوگ گھنٹہ گھنٹہ لیٹ کرتے ہو۔

‎اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان جزباتی ہوتے ہیں لیکن شبیر اُن جزباتی نوجوانوں میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور فکری و مستقل مزاج سیاسی رہنماء تھا وہ کوئی کام جلدبازی میں سر انجام نہیں دیتا تھا بلکہ ہر کام کرنے سے پہلے وہ دوستوں سے سیر حاصل بحث و مباحثہ کرتا تھا اور پھر وہ اپنا کام مکمل کر لیتا تھا اُس کی مستقل مزاجی کا ایک نمونہ میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا، جب شبیر اور عزت ہمارے یہاں ایک دورے پر تھے اس وقت ایک مسلح تنظیم سے بی ایس او کے کافی اختلافات سر اُٹھا چُکے تھے اور اُسی تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان علاقے میں موجود تھا۔ جو پہلے بی ایس او آزاد کے ایک زونل صدر رہ چکا تھا جنہیں عزت و شبیر نے حال حوال کیلے مدعو کیا وہ سنگت کافی جذباتی تھا اور کئی ایسے غیر سیاسی بات کرنے لگا یہاں تک دیوان میں سنگتوں کے خلاف بد کلامی بھی کی لیکن شبیر نے اُس کے ہر بات پر ہنس کر جواب دیا اور ایک معلم سیاسی رہنماء کی طرح سیاسی زبان اور سیاسی الفاظ کا چناؤ کرکے جواب دیتا رہا اور آخر تک دوست کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا۔

بلوچستان کے حالات مزید خراب ہونے لگے، فوجی آپریشنز اور بربریت میں کئی حد تک تیزی آ گئی، بی ایس او کیلئے دشمن سب دروازے بند کرنا چاہتا تھا لیکن بی ایس او کے نظریاتی کارکناں اپنی سیاسی جدوجہد کو بلوچستان کے کونے کونے میں جاری رکھے ہوئے تھے 2015 کے ہونے والے بی ایس او آزاد کے بیسویں قومی کونسل سیشن میں شبیر بلا مقابلہ تنظیمی مرکزی انفارمیشن کے عہدے پر فائز ہو گئے اور اپنی مزید بھاری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لیتے رہے وہ تنظیم کی جانب سے دیے گئے ہر عمل کو بخوبی اور بہترین طریقے سے سرانجام دیتے تھے۔

‎شبیر دیگر تنظیمی ساتھیوں کے ہمراہ گورکوپ میں ایک دیوان میں تھے کہ دشمن نے علاقے پر حملہ کر دیا، یہ آپریشن بی ایس او آزاد کے پروگرام کو سبوتاز اور اُن کے لیڈروں کو گرفتار کرنے کیلئے سر انجام دیا گیا تھا۔ آپریشن میں باقی دوست سلامت رہے لیکن دشمن نے شبیر کو اغواہ کیا۔ آج دو سال پورے ہو چُکے ہیں لیکن شبیر کی خیر و سلامت کی کوئی خبر نہیں شبیر کی بازیابی کیلئے تنظیم نے مختلف مظاہرے و ریلیاں کیئے عالمی و انسانی حقوق کے علمبرداروں کو شبیر کی جبری گمشدہ کے حوالے سے آگاہ کیا لیکن ابھی تک شبیر کی بازیابی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور ناکہ اُنہیں کسی کورٹ میں پیش کیا گیاہے۔ شبیر کی بازیابی کیلئے اُس کی بہن سیمہ بلوچ ہر عالمی و انسانی حقوق کے علمبرداروں کے پاس اپنی فریاد پہنچا چکی ہے۔ سیمہ کا کہنا ہے کہ اگر میرے بھائی نے کوئی جرم کیا ہے تو پاکستان کے یہاں عدالتیں موجود ہیں اُنہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر کوئی جرم میں ملوث پایا گیا تو اُسے قانون کے طور پر سزا دی جائے لیکن چونکہ پاکستان میں عدالتوں کا کردار بہت ہی محدود ہے اور یہاں ہر فیصلہ فوج کی زیر نگرانی میں ہوتا ہے اس لیے آج ہزاروں سیمہ روڈوں پر احتجاج کرتی دیکھائی دیتی ہیں اور شبیر جیسے شعور یافتہ نوجوان پرامن جدوجہد کی پاداش میں ساری عمر سزا کاٹتے ہیں۔

‎عالمی و انسانی حقوق کے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک لاچار بہن کو سپورٹ کرتے ہوئے اُس کی آواز بن کر شبیر کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائیں، انسانی حقوق کے دعویدار ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، وہاں اپنی آواز بلند کریں اور متاثرہ لوگوں کی مدد کریں۔ اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو سر انجام نہیں دے سکتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علمبردار کہلانے کا کوئی حق نہیں بنتا انسانی حقوق کے علمبردار وہ لوگ ہیں جو ظلم و ناانصافی کو دیکھ کر اپنا منہ نہیں پھیرتے بلکہ اُس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جدوجہد کرتے ہیں، مشکلات و مصائب کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنی زمہ داریوں کو سر انجام دینے میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے، اگر واقعی میں آپ انسانی حقوق کے دعویدار ہیں تو شبیر کیلئے آواز اٹھائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔