سنجیدہ بنو ۔ حاجی بلوچ

222

سنجیدہ بنو

حاجی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بچگانہ، نادانہ، غیرذمدارانہ طریقے سے اگر آزادی ممکن اور حاصل ہوتا تو بلوچ قوم ان ستر سالوں میں آزاد ہوچکا ہوتا، تو خدارا اب ایمانداری مخلصی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اپنے قوم کے ساتھ مخلصانہ ایماندارانہ کردار ادا کر کے اپنے قوم کا حق ادا کرنا ہوگا۔

جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہہ اسلام کے ساتھ مخلص ہوا کرتے تھے، ہم سب صرف پانچ منٹ کےلیئے اکیلے بیٹھ کر یہ فکر کرنے لگیں کہ آخر کونسی کمی، خامی، کمزوری ہے جو ہمیں کامیابی و کامرانی کی طرف سے روک رہی ہے۔ انہی خامیوں اور کمزوریوں کو ہم محسوس کرتے ہیں، پھر بھی ان کی بیخ کنی نہیں کر پارہے ہیں کیوں؟ یہی غیر سنجیدگی اور غیر مخلصی کی علامت ہے۔

شاید کوئی ایماندارانہ اور مخلصانہ کردار تحریک کے اندر ادا کر رہا ہے، تو وہ یہ آرٹیکل پڑھ کے ضرور اپنے دل میں یہ تصور کریگا یار میں تو مخلص ہوں، حقیقت ہے ضرور کچھ نہ کچھ مخلص دوست ہیں کہ یہ جنگ ابھی تک اللہ کے حکم سے اپنے کم وسائل کے ساتھ جاری و ساری ہے، ورنہ کب کا اس بلوچ تحریک کا میلیامیٹ ہوجاتا۔

مجھے یاد ہے میں کراچی میں پڑھ رہا تھا، تو میرے استاد نے مجھے بڑےبڑے سبق یاد کرنے کو کہا۔ استاد کی بات کو کوئی ٹال نہیں سکتا تھا، ضرور یاد رکھنی پڑتی تو بہت محنت اور کوشش کے بعد یاد ہوتا تھا۔ یاد ہونے کے بعد استاد کو سنانا پڑتا تھا، جب استاد کو سنایا، تو ایک غلطی بھی نہیں ہوا، صرف ایک ہٹکھن ہوئی پھر استاد نے مجھے کہا تم کو سبق یاد نہیں ہے، میں حیران ہوا یار اتنی محنت کے باوجود استاد بولتا ہے یاد نہیں ہے، استاد نے مجھے یاد نہیں ہے بھی کہا اور آگے بھی سبق دے دیا تو میں نے ایک دن ہمت کرکے استاد سے پوچھا، استاد آپ نے کہا تم کو سبق یاد نہیں ہے تو بجائے میں یہی سبق یاد کروں آپ مجھے آگے سبق یاد کرنے کو کہتے ہیں، کیوں؟ تو پتہ ہے میرے استاد نے مجھے کیا کہا “بیٹا آپ کو سبق یاد تھا، میں نے اس لیے کہا تاکہ تم زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور کوشش کرو۔” مطلب اپنے محنت اور لگن میں اور اضافہ کرو، تو یہ مخلص والی بات ان دونوں کے لیئے ہے، جو مخلص بھی ہیں اور وہ جو نہیں بھی ہیں۔

حدیث مبارک میں حکم ہے، “اپنی حاجتوں کی تکمیل میں رازداری اور مخلصی سے کام لو۔” حدیث میں ایک اور جگہ مفہوم ہے “اللہ تعالیٰ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کا بندہ جب کوئی کام کرے تو اتقاق اور اہتمام کے ساتھ کرے۔”

تو اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے ہم سب کو پتہ ہے 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر زبردستی قبضہ کر لیا اور الحاق کے کاغذات پر دستخط کروایا گیا، اس دن سے لے کر آج تک بلوچ قوم نے اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے بھرپور انداز میں مخالفت کی اور مخالفت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، اور اس الحاق کے خلاف پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف اس دن سے لے کر آج تک مزاحمت ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

بلوچستان پارلیمنٹ کے اندر ایک ممبر نے کیا خوب کہا، پاکستان کے خلاف، نام مولانا عرض محمد صاحب “اگرچہ ہم کمزور ہیں لیکن اسی طرح ہم بھی ایک کمزور بلی کی طرح ہی ہیں، ختم ہونگے مٹ جائیں گے لیکن اپنے دوشمن کا چہرہ ضرور نوچ لیں گے۔”

جب پاکستان نے بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا تو پہاڑوں کی طرف رخ کرنے والا عبدالکریم خان سے لے کر نواب نوروز خان تک، نوروز خان سے لے کر آج کی قیادت تک یہ مزاحمت چلتا آرہا ہے اور آگے بھی اس مزاحمت کو چلانے والے پیدا ہوتے رہیں گے بلوچستان کی آزادی تک مقصد کے حصول تک۔”

تو پہلے جتنے بھی انسرجنسی گذر چکے ہیں، ان کا مطالعہ کیا جائے آخر کونسی کمی، خامی، کمزوریاں تھیں جو ناکامی کے سبب بنے، تاکہ ان خامیوں کو اب نہ دہرایا جائے، دنیا کے اندر جتنے بھی ناکام اور کامیاب تحریکیں ہیں، ان کو مطالعہ کیا جائے کھوج لگائیں، تلاش کریں research کریں، تاکہ ہم اپنی بلوچ تحریک کو درست سمت لے جاسکیں۔

دست بندی ہے، بلوچ قیادت سے، کارکنوں اور جہدکاروں سے اپنی ذاتی مفاد، خاندانی مفاد، اور علاقئی مفاد ،سستی شہرت، شوق لیڈری، اناپرستی،تکبر،حسد، بدنیتی، سے نکل کر ان کی بیخ کنی کرنی ہوگی۔ تب جاکے ہم ایک مخلص،ایماندار، راست گو،قوم دوست،وطن دوست، قیادت اور جہدکار کہلانے کے لائق ہونگے۔

حقیقی کامیابی اس وقت ملے گی، جب ہم اپنے آپ کو بلوچ قوم کا خادم تصور کریں گے، جس دن سے ہم نے اپنے آپ کو قوم سے برتر و اعلیٰ تصور کرنے لگے یقیناً ہماری بربادی اور تنزل کا آغاز ہوگا، اگر ہم نے اب ایمانداری مخلصی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو یقیناً ذلت و خواری اور تباہی یقینی ہے۔ میرا ایمان و یقین ہے نیک اور مخلص کے ساتھ اللہ تعالیٰ رب العزت کا مدد ہوتا ہے۔

 

 دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔