خاموشی ہی ہماری کمزوری ہے ۔ میرک شاہوانی

668

خاموشی ہی ہماری کمزوری ہے
تحریر۔ میرک شاہوانی

اگر ہم آج کے دور حالات پر نظر ڈالیں تو ہم بہت پیچھے رہ گئےہیں، ان سب کی وجہ ہماری خاموشی ہے آخر کب تک خاموش بیٹھے رہیں گے اپنے پیاروں کو دفناتے رہیں گے؟ آجکل ہم لوگوں کو یہی دیکھنے کو ملتا ہے اور ہم خود فخر کے ساتھ یہی کہتے ہیں کہ ہم بلوچ ہیں اور کون کہتا ہے ہم بلوچ ہیں؟ بلوچ وہ ہیں جو 1948سے لیکر بلکہ بلوچ قبل از تاریخ سے لیکر آج تک حق اور انصاف کے لیئے جدوجہد کر رہے ہیں اور ہمارے روشن مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہم، اگر ہمارے یہاں پاکستانی مظالم فوج یا ایجنسی ہمارے پیاروں کی لاش پھینکتا ہے تو ھم لاش کو پہچاننے سے انکار کرتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ اس لیئے پہچاننے سے انکار کیا کیونکہ بھائی حق اور انصاف کے لیے لڑرہا تھا تو اگر میں یہ کہوں تو ظالم فوج مجھے بھی اغواہ کرے گا۔ اس حد تک ہم آ چکے ہیں۔

ہمیں حالات پہ نظر ڈالنا چاہیئے کہ ہم کس ہال میں ہیں، ہمیں اپنے وطن کے شہیدوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جنہوں نے اپنی جان ہمارے لیے، وطن کے لیے قربان کیئے اور ہمارے روشن مستقبل کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ تو پھر ہم کیوں خاموش ہیں؟ ہمیں بھی حق کے لیے لڑنا چاہیئے، ان کے لیئے، جن کو اب تک ایک اچھا جھونپڑی میسر نہیں، دن میں کتنے بچے بوڑھے اغواء کیئے جاتے ہیں اور کتنوں کی لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔ اب ہمیں چاہیئے کہ متحد ہوکر دشمن کے ہر مشن کو نیست نابود کریں اور اپنے آگے کی نسل کے لیئے ایک روشن مستقبل بنائیں۔

اگر ہم اس طرح خاموش بیٹھے رہیں گے، غلامی سہتے رہیں گے اور ہمارے آگے کی نسل ہمارے قبروں پر لعنت بھیجیں گے کیوں آپ لوگوں نے غلامی قبول کی، وطن کے لیئے جدوجہد نہیں کی اور جو لوگ وطن کے لیے لڑ رہے تھے انکا کیوں ساتھ نہیں دیا؟

زندگی کے دو دن ہیں، پتہ نہیں کب، کدھر ختم ھو جائیں، اس دو دن کی زندگی کو ہمیں انصاف اور حق کے لیے مختص کرنا چاہیئے تاکہ ہمارے بچے ہمارے قبروں پر لعنت نہ بیھجیں، انسان کی یہ دو دن کی زندگی، نہ جانے کہاں ختم ہوگی، تو اس دو دن کی زندگی میں انسان کو ایک شخصیت نہیں بلکہ نظریہ بن کے جینا چاہیئے۔ اس کی سوچ ہمیشہ زندہ ہونا چاہیے، اس دنیا میں ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں مٹی میں جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں ان کی سوچ ہمیشہ کے لیے زندہ رہتا ہے، حق اور انصاف کے لیے لڑنے والوں کا سوچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

چی گویرا جیسے لیڈر کی سوچ آج بھی زندہ ہے، ہم تو اس دنیا میں دو دن کے مہمان ہیں لیکن ہمیں چاہیئے کہ کچھ ایسا کریں جس سے ہماری سوچ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے،اس بلوچستان کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی جان دی اور سب نے صرف اور صرف آزادی کے لیے قربانی دی۔ شہید نواب اکبر بگٹی، نوروز خان، بالاچ مری سمیت کئی لیڈروں اور جانباز سپاہیوں نے اپنی جان اس مادر وطن کے لیے قربان کیا، ہم سب کی منزل صرف اور صرف آزادی ہے اور آزادی ہم لےکے رہیں گے۔

ہمیں ان بھائیوں کا حساب لینا چاہیے جو کئی سالوں سے ٹارچر سیلوں میں بند ہیں، ان کاجن کو زندہ دفنایا گیا، ان کا جن کی لاشیں دریاوں میں پھینکی گئیں، ان شہیدوں کا جنہوں نے اپنی جان وطن کے لیے قربان کیا۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔