ایک انقلابی کامریڈ حاضل کا اپنے دوست کے نام خط

650

ایک انقلابی کامریڈ حاضل کا اپنے دوست کے نام خط

دی بلوچستان پوسٹ

عیسیٰ میں تقریباً ایک ماہ سے کاراوانگ میں ہوں۔ لیکن آج مجھے پہلی مرتبہ موقع ملا ہے کہ تمھیں کوئی خبر سُناؤں۔ ہم کاراوانگ کے علاقے میں عوامی فوج تیار کرنے میں مصروف رہے۔ کرنے کو بہت کچھ ہے مگر ایماندار اور قابلِ اعتماد لوگوں کی کمی ہے جو یہ سب کرسکیں۔

میرا خط لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمھیں انقلاب کی اہمیت اور ولولے کے بارے میں بتاؤں۔ تاکہ تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوسکو۔ لیکن یہ مکمل بات نہیں ہوگی، اگر میں تمھیں صرف اچھائیاں ہی بتاؤں یہ تو اپنے آپ کو اور تمھیں دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ بے شک ہم میں سے اکثر لوگوں کے آدرش بہت بلند ہیں لیکن مجھے دن بدن ایسے لوگ کثرت کے ساتھ نظر آرہے ہیں جو انقلاب کا لبادہ اَوڑھ کر اپنے گٹھیا مفادات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کتنے ہی جنگجو سردار ہمارے اندر پیدا ہوگئے ہیں! مسلح گروہوں کے راہنما جو کسی بھی چیز کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ اکثر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان سے چاول، گوشت اور روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جو ظلم وہ کرتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہے۔

بعض اوقات میں یہ سوچ کر شرم سے غرق ہوجاتا ہوں کہ ہم جکارتا میں این آئی سی اے ( Nica ) کی جس دہشت اور تشدد کی مذمت کرتے ہیں وہی سب کچھ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔

میں تمھیں ایک بے مقصد ، ظالمانہ اور غیر ضروری قتل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ جو بالکل اس انداز میں کیا گیا جس طرح تم چیونٹی کو مسل دیتے ہو۔ بالکل اسی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دیہاتی خوانچہ فروش تھا۔ جو جکارتا سے آیا تھا اس کے پاس کپڑے کے بنڈل اور قمیضیں تھیں بے چارہ معمولی دیہاتی خوانچہ فروش، انھوں نے اسے بکاسی کے مقام پر پکڑا اور ٹرین سے باہر نکال لیا۔ پھر اُسے باقاعدہ لوگوں کی کمپنی کے ہیڈکوارٹر لے جایا گیا، جہاں اس کے تمام سامان کی تلاشی لی گئی تو اُنھیں ایک تولیہ ملا جس کے برانڈ کی مہر کے کناروں پر سرخ ، سفید اور نیلا رنگ تھا۔ صرف اس قصور میں اس رات اس کو قتل کردیا گیا۔ مجھے یہ کہانی رحمت نے سُنائی جس کا شاید مقدر بن گیا ہے کہ اپنے لوگوں کے خلاف ہونے والے ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس نے اُسے قتل ہوتے تو نہیں دیکھا مگر تلاشی، انکوائری اور سزائے موت سُنائے جانے کے وقت وہ وہیں تھا۔ اب ہم اپنے آپ سے بھی خوفزدہ ہیں ہر ایک پر شک کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ دشمنوں کا جاسوس نہ ہو۔

رحمت اب تشدد دیکھنے کا عادی ہوگیا ہے۔ وہ ہمارے سب سے بہادر آدمیوں میں سے ہے لیکن پھر بھی کچھ کہتا نہیں ہے اس کے احساسات بہت گہرے ہیں۔ وہ دن بدن کم گو ہوتا جارہا ہے۔ کریم تو یقیناً تُمھیں یاد ہوگا۔ وہ بکاسی کے نزدیک دشمنوں کے جتھے سے لڑائی کے دوران شدید زخمی ہوگیا ہے اور اِن دنوں پرواکارتا کے فوجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ اگر تمھارے پاس کچھ اخبار ہوں تو رحمت کے ہاتھ اسے بھجوادو۔

یہ انقلاب ایک سیلاب کی طرح ہے اور اب کوئی بھی اس کے بہاؤ پر قابو نہیں پاسکتا۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری مرضی کے بغیر اپنے ہی راستے پر چل پڑتا ہے۔ میں ایک ماہ جکارتا سے باہر جارہا ہوں کیونکہ ڈچ انٹیلی جینس ایجنسی اور انگلش فیلڈ سیکورٹی والے میری تلاش میں ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف لبادوں میں اور بھی بہت سے خوف ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ راستہ جس کا کوئی اختتام نہیں ہے اور جسے ہم نے خود چُنا ہے اس پر ہم ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے کیونکہ ہم زیادہ مضبوط نہیں ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ڈرا ہوا شخص اس خوف سے بھری دنیا میں کچھ حاصل کرسکے؟

ہر قسم کے خوف ہمیں ہر سمت سے ڈرا رہے ہیں لیکن اب میں دوبارہ اپنے آپ پر ہنس سکتا ہوں۔ میں جکارتا سے کیوں بھاگوں؟ صرف اس لیئے کہ میں انٹیلی جینس ایجنسیوں اور فیلڈ سیکورٹی والوں سے خوفزدہ ہوں؟ ہم ہر چیز سے نہیں ڈر سکتے۔ اس لیئے جونہی میرا کام یہاں ختم ہوگا میں جکارتا واپس چلا جاؤں گا۔ اگرچہ یہاں بھی میں اپنے وائلن سے علیحدہ نہیں ہوں لیکن میری شدید خواہش ہے کہ میں دوبارہ اسے بجا سکوں۔ بے شک مجھے اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بہت سے تجربات ہوئے ہیں۔ جنھوں نے میرے وائلن بجانے کے فن کو ترقی دینے میں بڑی مدد کی۔ خط کو پڑھنے کے بعد جلا دینا۔ یہ ایک اور خوف ہے کہ مبادا خط کسی ایسے شخص کے ہاتھ لگ جائے جو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہو لیکن مجھے اُمید ہے کہ یہ خوف ایک صحت مند خوف ہے۔ یہاں کے حالات کے متعلق میں تمھیں بہت کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ جو اگر چہ بہت زیادہ خوفناک ہے مگر بہت دلچسپ ہے ۔ رحمت بھی باقی معملات کے بارے میں بتا دے گا۔ فاطمہ کو میری طرف سے آداب ۔”

( بے منزل راستہ )
” مختار لوبس “

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔