ہوائی گھوڑوں پہ سوار لیڈروں کے نام – کوہ ناز بلوچ

642

ہوائی گھوڑوں پہ سوار لیڈروں کے نام

تحریر: کوہ ناز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

2018 کے انتخابات میں پاکستانی کاسہ لیس ووٹوں کیلئے سرتوڑ محنت کر رہے تھے، ہر گلی کوچے میں نظر آتے تھے، گھر گھر جا کر لوگوں سے مل رہے تھے، چار پانچ سال پہلے مرے ہوئے لوگوں کی تعزیتوں پر جارہے تھے، صرف اپنے ایک ذاتی مقصد کے لیئے کہ لوگ انہیں ووٹ دیں، انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ان کے مخالف ان پر تھوک رہےتھے، ان کا مزاق اڑا کر ہنستے تھے لیکن انہیں کسی بھی بات کی پرواہ نہیں ان کا مقصد لوگوں کو خوش کرنا تھا، اپنی طرف لانا تھا۔

اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے 2013 کے انتخابات کے نسبتا ً 2018 کے انتخابات میں لوگ کچھ زیادہ ہی ان سے خوش تھے اور ہیں بھی خاص کر بی این پی مینگل سے، لوگ سمجھتے ہیں وہ ہم مظلوموں کی آواز ہیں، شہروں سے لوگ اپنے علاقوں کی طرف دوڑ رہےتھے، اپنے فلانی سردار یا میر کو ووٹ دینے، جہاں تک میری نظر پڑی ہے، لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے گئے کسی بندوق کی زور پر نہیں۔

اگر ہم جھلاوان بیلٹ پر نظر دوڑائیں تو وہاں کچھ علاقوں میں کم ووٹ کاسٹ ہوئے جیسے کہ خضدار، زہری، قلات اور کچھ علاقوں میں لوگ ایسے گھروں سے نکلے تھے ایسا لگ رہا تھا وہاں سے کوئی انقلاب نکل رہا ہو۔ جیسے کہ سوراب و گردونواح۔

میں پاکستانی میڈیا کی بات پر یقین نہیں رکھتی، وہ جے ایچ کیو سے نیوز لے کر چلاتے ہیں خاص کر بلوچستان کے لیئے، انتخابات کے دوران بھی ایسے ہی ہوا، بلوچستان میں جہاں ووٹرز کی تعداد 4، 5 ہزار تھی 10 ہزار بتایا گیا ایسے ہی ووٹرز کی تعداد کو 10, 20 فیصد زیادہ بتایا جارہا ہے- یہ میں نے مان لیا پاکستانی میڈیا جھوٹ اور فریب ہے، مگر پاکستانی میڈیا سے کئی گنا زیادہ مجھے اپنے دوستوں پے بھروسہ ہے، جنہوں نے مجھے اپنے آنکھوں دیکھا حال سنایا اور جہاں تک میری رسائی ممکن تھی میں خود گئی جائزہ لینے اور مجھے ایسا رش کش ملا میں خود دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہ وہی عوام ہے جس نے 2013 میں پاکستانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، پورے بلوچستان میں صرف 5 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے( اس بار 39فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے)

اس بات سے بھی کوئی انکاری نہیں، پاکستانی کاسہ لیسوں کے بدمعاش بندوق بردار اور فوج لوگوں کو بندوق کے زور پر گھروں سے نکال کر ووٹ ڈالنے لے گئے( یہ ایک الگ بحث ہے اور ہم سب جانتے بھی تھے پچھلے کئی سالوں سے ظلم و بربریت کرنے والا فوج لوگوں کو بندوق کے زور پر ووٹ ڈالنے لے جائے گا) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، پچھلے پانچ سالوں میں ایسا ہوا کیا ہے جو لوگ ان دلاروں کے پیچھے اتنا بھاگ رہے ہیں؟

اب ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں اپنے راجی سرخیل، آزادی پسند، قوم پرست، علیحدگی پسند، راہشنوں، لیڈروں، رہبروں پر۔

2006 میں جب شہید اکبر بگٹی کو پاکستانی فوج نے اپنے بربریت کا نشانہ بنایا تو پورے بلوچستان میں ہر بلوچ بچے، بوڑھے جوان کھل کر پاکستان سے نفرت اور اپنے آزادی کا اظہار کرنے لگے۔

2009،10 اور 2011 میں پاکستانی فوج نے بلوچستان میں دھاوا بول دیا، چھوٹے بچوں سے لیکر بوڑھے ضعیف لوگوں تک سب کو اپنے بربریت کا نشانہ بنایا، پکڑ دھکڑ، مارپیٹ، لوگوں کا اغوا ہونا، مسخ شدہ لاشیں ملنا روز کا معمول بن گیا۔ جب فوج نے پوری طرح اپنا خوف بلوچستان کے چاروں طرف پھیلایا تو کچھ لوگوں نے اپنا موقف بدلا، کچھ خاموشی سے اپنا کام کرنے لگے کچھ بیرون ملک چلے گئے، فوج پھر بھی خاموش نہیں بیٹھا، مظلوموں پر دن رات ظلم کے پہاڑ توڑتا گیا۔

2013 سے جب مسلح تنظیموں اور لیڈروں کے آپسی اختلافات کھل کر بلوچ عوام کے سامنے آگئے، تو سوشل میڈیا میں کہرام مچ گیا، سب اپنے اپنے لیڈروں کی تعریف اور مخالف لیڈر پر الزامات کی بارش کرنے لگے، کوئی کسی کو تحریک کےلیئے نقصان تو کوئی کسی کو ٹہرانے لگا، اس سے نا صرف دشمن کو فائدہ ہوا بلکہ تحریک بھی اس کے زد میں آگئی۔

اس دوران لیڈرز اپنے کارکنوں کو بندر کا ناچ نچوا رہے تھے اور خود تماشائی بنے بیھٹے دیکھ رہے تھے، اور اپنے ہی دوستوں پر اگلے وار کا سازش کر رہے تھے، وہاں بےوقوف بندر خوب ایک دوسرے کا راز افشاں کررہے تھے

اس آپس کی لڑائی کو دیکھ کر بےچارہ عوام جو ایک طرف پاکستانی فوج کی بربریت کا شکار ہو رہے تھے، اُوپر سے لیڈروں کی نا اتفاقی اور مسلح تنظیموں کی غلط پالیسی دیکھ کر مایوس ہوتے جا رہے تھے، جس کا چالاک شاطر فوج نے خوب فائدہ اٹھایا، اپنے کچھ تلوے چاٹنے والوں کو عوام کے سامنے لایا ان کا ہمدرد بنا کر۔

یہاں پاکستانی دلار اپنے باپ کو خوش کرنے اور بلوچ آزادی پسندوں سے لوگوں کو مزید بدظن کرتے گئے، لوگوں کے دلوں میں آگ تو پہلے ہی ہمارے نادان لیڈروں، رہشونوں، رہبروں کے آپسی اختلافات اور مسلح تنظیموں کے غلط پالیسیوں نے لگائی تھی ان دلاروں نے تو ذرا سا تیل چھڑکا اور ان کا کام بن گیا۔

دوسری طرف وہ کارکن جو سوشل میڈیا کی جنگ سے بے خبر اپنے شہیدوں کا ارمان پورا کرنے میں مگن تھے، ان کو عام لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات بڑھتے گئے، تو انہوں نے مزید اپنے جان کو خطرے میں ڈالنے سے احتیاط کرنے لگے۔

اب یہاں لیڈروں کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی حکمتِ عملی ترتیب دیتے، جس سے عام کارکنوں کی جان کی حفاظت ہو جاتی اور عوام بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے، مگر بدقسمتی سے لیڈروں نے اپنے آپسی اختلافات کو انا کا مسئلہ بنا رکھا تھا اور سب اپنے اپنے مسجد لگ الگ تیار کرنے میں لگے تھے۔

اب عوام کی شعوری بیداری کےلیئے نہ کارکن رہے نہ ہی لیڈر صاحبان۔ یہاں لوگ غلامی میں اس طرح جکڑے ہیں کہ شہدا کو قومی نہیں قبائلی یا کسی خاندان کے کھاتے میں ڈال کر خاموشی سے سب بھول جاتے ہیں، اجتماعی قبروں تک کو اپنا نہیں سمجھتے، ان اسیروں تک کو بھول گئے ہیں جو انہی لوگوں کے لیئے قید و بند و دشمن کی وحشیانہ تشدد برداشت کیئے ہوئے ہیں۔ ایسے غلامی میں پھنسے لوگوں کو آپ کیسے اپنے خاموشی سے شعور اور آگاہی دے سکتے ہیں، جس کے لیئے گراونڈ میں کام انتہائی ضروری ہے اور سوشل میڈیا ہی واحد راستہ ہے جو آپ کو میلوں دور بیٹھے بھی ان لوگوں تک آپکی آواز پہنچا سکتی ہے تو ہچکچاہٹ کیوں؟

یہ تو لیڈر کا ہی کام ہے کہ لوگوں کو شعور و آگاہی دے کہ تم غلام ہو، یہ جو تم سوچتے ہو اسکی وجہ کیا ہے، جو تمہارے اوپر ہو رہا ہے وہ کسی خاندان کا مسئلہ نہیں، یہ اجتماعی قبریں تمہاری ہی ہیں..

مگر افسوس ہر کوئی ڈیڑھ انچ کی مسجد لگانے میں مصروف، تعریف سننے میں مصروف، دشمن کو کچھ سمجھتا نہیں، سچ تو یہ کہ دشمن اپنے چال میں کامیابی پا رہا ہے، جس عوام کو وہ ہم سے دور رکھنا چاہتا تھا، وہ تو کامیاب ہو رہا ہے، نئے مہرے لیکر وہ سب کو پاکستان پرست کرنے پر تلا ہوا ہے، سچ تو یہ ہے محترم لیڈرز آپکو کوئی ڈسکس بھی نہیں کرتا، لوگوں کی اس مایوسی اور منتشر ہونے کا سہرہ بھی لیڈر صاحبان آپ کے سر جاتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت لفظ آزادی کو دیوانے کا خواب سمجھ کر کنارہ کش ہو رہے ہیں اور ہمارے نادان لیڈرشپ دشمن کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، جو باہر بیٹھے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی کثیر تعداد کبھی بھی ہمارے آواز پر باہر سڑکوں پر نکل آئے گی یا ہتھیار اٹھا کر دشمن کے مدمقابل کھڑی ہوگی ٹھیک ہے، اچھا خواب ہے لیکن کیسے اس کے لیئے گروانڈ پر کام کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کی ضرورت ہے، جو سیاسی جماعتوں کا کام تھا سیاسی جماعتیں اب یہ کام کھلے عام نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ ریاست نے انہیں کالعدم قرار دے دیا ہے تو کیا اس کا متبادل راستہ کسی نے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش کی؟

آپکو نہیں لگتا کہ کہ اب آپ لوگوں کا ہوائی گھوڑوں سے اتر جانا ہی بہتر رہیگا اور گراونڈ میں آکر قوم کو سنبھالیں، سوشل میڈیا پر اپنے آفیشل پیج یا چینلز بنائیں ان کے ذریعے قوم کو غلامی کے خلاف شعور و آگاہی دیں، لیکچر ریکارڈ کروائیں دوستوں سے انگلش ڈاکومنٹریز بنوائیں، تنقید سے ڈرنا بند کریں، ایسے حساس معاملات کو سوشل میڈیا پر ڈسکس کرنے یا اپنی انا کو لیکر راز افشا کرنے سے پرہیز کریں، حساس معاملات کو اندرونی طور پر حل کریں، جس سے دشمن کو فائدہ ہو سکتا ہو۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے پرہیز کریں، صرف اپنے قوم کو سنبھالیں جو اپ سے کبھی بڑی امیدیں لگا بیٹھی تھی. ایسے حالات میں سوشل میڈیا ہی گراونڈ سیاسی جماعتوں کا متبادل ہو سکتا ہےاور تحریک ایکٹیو رہ سکتی ہے.

خدارا ہوش کے ناخن لیں، اب بھی آپکا رویہ نہ بدلہ تو دشمن اپنے چال میں یوں ہی مزید کامیاب ہوتا رہے گا اور آپ نا دانستہ طور پر اس تحریک کو نقصان پہنچانے میں بڑے مہرے قرار پاو گے۔