بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ نام نہاد قوم پرستوں کا پاکستان پارلیمنٹ میں شمولیت اور بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے جھوٹی تسلیاں بلوچ عوام اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ بات ایک حقیقت بن چکی ہے کہ پاکستان میں بلوچوں کے حقوق اور شناخت کی کوئی ضمانت نہیں۔ بلوچ اپنی ہزارہا سالہ تہذیب و ثقافت اورقومی سرزمین کا مالک ہیں اور قبضے کے خلاف جد وجہد جاری رکھیں گے۔ بلوچستان میں ریاستی مظالم بلوچستان کی آزادی سے مشروط ہیں۔غلامی میں اغوا، قتل اور مظالم کا روک ناممکن ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کراچی میں ضلع آواران کے رہائشی کی محمد بخش کلملی کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ہے۔ وہ بی این ایم آواران ریجن کے ایک سرگرم رکن تھے۔ انہیں 2015 میں آواران بازار سے لوگوں کے سامنے پاکستانی فوج نے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ایسے میں پاکستانی ریاست اور اس کے ہمنواؤں کا بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کا ڈھونگ اور حقیقت سب کے سامنے عیان ہوچکا ہے۔ ہم شہید محمد بخش کو سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بلوچ قومی آزادی کی خاطر زندانوں میں اپنی جان کی قربانی دی مگر قابض کے سامنے سر نہیں جھکایا اور جہد آزادی میں جام شہادت نوش کی۔
دریں اثناء بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ ہفتہ کے روز یکم ستمبر کو جرمنی کے شہر ہنوفر میں بی این ایم کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جا ئے گا۔ یہ مظاہرہ پاکستان کی جانب سے بلوچ خواتین اور بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے اجتماعی سزا کے طور پر بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ عام شہریوں، خواتین اور بچوں کے اغوا میں تیزی لائی ہے اور احتجاج کرنے والوں کو بھی سنگین نتائج کے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان مظالم کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں اور شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔
ترجمان نے تمام قوم پرستوں، سماجی اور انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ احتجاج میں شرکت کرکے پاکستانی مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کرکے انہیں روکنے میں ہماری مدد کریں۔ سوشل میڈیا کے صارفین سے گزارش ہے کہ اس دوران #SaveBalochWomen کا ہیشٹیگ استعمال کریں۔