بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کا 58 واں مجلس عاملہ کا ا جلاس مورخہ5؍اگست2018ء کو اکیڈمی کمپلیکس کوئٹہ میں منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت چیئرمین ممتاز یوسف نے کی،جنرل سیکرٹری شکورزاہد نے سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کیا۔
جس میں انہوں نے گزشتہ سال کے دوران منعقد کئے گئے ادبی سرگرمیوں اورتقریبات، نشر واشاعت ودیگر منصوبوں کے متعلق آگہی دی گئی جبکہ سیکریٹری فنانس پناہ بلوچ سالانہ مالی اخراجات کی رپورٹ کے بارے میں بریفنگ دی ۔
اجلاس میں گزشتہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے بلوچی زبان‘ ادب اورثقافت کے فروغ کے لئے مزید جوش وجذبے کے ساتھ اقدامات اٹھانے کے لئے تجاویز پیش کئے گئے۔بلوچی اکیڈمی کے اجلاس میں درج ذیل قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں،جن میں قرارداد 1۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان،ادارہ فروغ قومی زبان( مقتدرہ قومی زبان)، نیشنل بک فاؤنڈیشن، لوک ورثہ،پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس ودیگر وفاقی ادبی وثقافتی اداروں کے سربراہان کے نامزدگی میں ہر وقت ایک صوبے،علاقے یا زبان کے ادیبوں، دانشوروں، محققین کو ترجیح دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں اور دیگر پاکستانی زبانوں کے دانشوروں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔
مجلس عمومی کا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، مقتدرہ قومی زبان نیشنل بک فاؤنڈیشن، لوک ورثہ، نیشنل کونسل آف آرٹس ودیگر ادبی وثقافتی اداروں کے سربراہان کے عہدے پر تمام صوبوں اور زبانوں کو برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
قرار داد 2 ۔ بلوچی اکیڈمی کا یہ اجلاس بلوچستان میں آثار قدیمہ، تاریخی نوادرات کے اورتاریخی مقامات کے تحفظ کو یقینی نہ بنانے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی اور مرکزی حکومت سے ان تاریخی آثار نوادرات کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔
اسی طرح بلوچستان میوزیم کو دوبارہ فعال بنایا جائے۔بلوچستان بھر میں موجود آثارقدیمہ کے تحفظ ،فروغ اور محفوظ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ،اس کے علاوہ مہرگڑھ کے مقام پر بین الاقوامی معیار کا میوزیم اور تحقیقی مرکز قائم کیا جائے۔
قرار داد 3۔ بلوچی اکیڈمی کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے موجودہ نصاب کو تبدیل کرے اور نئے نصاب میں بلوچوں کے تاریخ، زبان اور ثقافت کونمایاں طریقے شامل کرکے نئی نسل کو حقیقی معلومات فراہم کرے ۔
بلوچی اکیڈمی کا یہ اجلاس یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ پہلی جماعت سے لے کر دسویں تک بلوچی زبان میں نصاب تشکیل کرے جس کی تیاری میں بلوچی اکیڈمی کوبھی نمائندگی دی جائے۔
قرار داد4۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچی زبان کو اسکول اور کالج سطح پر پڑھایا جائے اور اس کے لیے بلوچی کے لیکچرار اور استاد تعنیات کیے جائیں۔