ایرانی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق شام کے وسطی شہر تدمر میں اتوار کے روز ہونے والی جھڑپوں کے دوران ایرانی پاسداران انقلاب کا 32 سالہ اہل کار محمد ابراہیم رشیدی مارا گیا۔ رشیدی کو دھماکہ خیز مواد کا عسکری ماہر شمار کیا جاتا تھا۔
پاسداران کے زیر انتظام نیو ایجنسی “تسنيم” کے مطابق رشیدی سڑک پر نصب بارودی سرنگ پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہوا۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ایران پاسداران انقلاب کے ایک اور کمانڈر میجر جنرل شاہ رخ دائی پور سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ دائی پور شام میں حلب، اُس کے نواح اور شمالی صوبوں میں ایرانی فورسز کا ذمّے دار تھا۔ اس ہلاکت کے نتیجے میں ایرانی فورسز اور اس کی ملیشیاؤں کے پھیلاؤ اور وجود کے حوالے سے سوالات نے جنم لیا تھا۔
روس کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ شام سے ایرانی فورسز اور اس کی ملیشیاؤں کے انخلا کی ضرورت ہے، ایرانی فورسز بین الاقوامی اتحاد اور اسرائیل کے طیاروں کا کھلا ہدف بن چکی ہیں۔ آخری چند ہفتوں میں مختلف علاقوں میں ایرانی فورسز کو متعدد حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ درجنوں ارکان سے محروم ہو گئی تاہم ایرانی میڈیا نے ان ہلاکتوں پر پردہ ڈالے رکھا۔
ایسے وقت میں جب کہ ایران میں مظاہرین کی جانب سے حکمراں نظام کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج جاری ہے، تہران نے شام میں پاسداران انقلاب کی فورسز کے پھیلاؤ، بشار کو مالی معاونت (سالانہ 6 ارب ڈالر) پیش کرنے اور تیل وغیرہ کی صورت میں امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ایرانی نظام کی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی اور اقتصادی حالات ابتر ہو چکے ہیں اور کرنسی ڈھیر ہو چکی ہے۔ اس کے مقابل عوام کا پیسہ خطّے میں دہشت گردی کی سپورٹ اور ملیشیاؤں پر لُٹایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایرانی مظاہرین یہ نعرے لگانے پر مجبور ہو گئے کہ “شام کو چھوڑو اور ہماری فکر کرو”۔
ایران 2012ء سے شام میں معرکوں کی قیادت کر رہا ہے اور وہاں ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی پیروکار ملیشیاؤں پر خرچ کر رہا ہے۔ ان ملیشیاؤں کے اجرتی جنگجوؤں کی تعداد کا اندازہ 70 ہزار کے قریب لگایا گیا ہے جن کا تعلق لبنان، عراق، افغانستان اور پاکستان سے ہے۔