قوم پرست – زامُر زہری

695

قوم پرست

تحریر: زامُرزہری

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

یہ دنیا کا دستور ہے کہ یہاں انہی لوگوں کویاد رکھا جاتا ہے جو اپنے منشور پر ڈ ٹےرہتے ہیں، جو اپنی زندگیاں غربت و پریشانیوں میں گذار کر بھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس محدود زندگی میں اپنے ہر ایک لمحےکو اپنےقوم اور اصولوں پر قربان کرلیتے ہیں۔ اور اُس قوم کیلئے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ ایک مشہور قول ہے کہ عظیم انسان مرجاتا ہےلیکن موت اُسے نہیں مارتا۔ یقیناؓعظیم انسان، عظیم سوچ کبھی نہیں مرتا بلکہ ہردورمیں اُنھیں یاد رکھا جاتا ہے۔

آج میرا موضوع قوم پرست ہے اور قوم پرست اپنی زندگی کس طرح گذارتا ہے۔ قوم پرست اٗسے کہا جاتا ہے، جس کے سینے میں اپنے قوم کیلئے درد اور اپنی قوم پر مظالم ڈھانے والوں کیخلاف نفرت ہوتا ہے۔ قوم پرست اپنی زندگی، اپنے قوم کیلئے وقف کرلیتا ہے، چاہے وہ جانی، مالی یا پھر قلم کی صورت میں کیوں نہ ہو، وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا اور اپنی سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے، وہ اپنےگھروالوں بیوی، بچوں،عیش وعشرت سب کی پرواہ کیئے بغیراپنی کاروان کو اور اپنی سوچ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیئےشب وروزمحنت کرتا ہے۔

قوم پرستی انسان کا ایک ایسا دلچسپ روپ ہوتا ہے، جو اسے اس کے سرزمین کی ہوا، مٹی اورپانی سے ملتی ہے۔ انسان جب چھوٹاہوتاہے، تووہ کچھ سمجھ بُوجھ نہیں رکھتا ماں،باپ کی اُنگلی پکڑکر چلنا سیکھتا ہےاور وہ جُوں جُوں بڑا ہونے لگتاہے، تووہ اپنےوطن اوراردگردہونے والےظلم وبربریت وناانصافیوں کو دیکھ دیکھ کراُس کےدل میں ایک قوم پرستانہ احساس برپاہوجاتاہے۔ وہ اُس وطن میں ہر ایک کے چیخ وپکاراور اُن پرہونیوالےظلم کوبرداشت نہ کرتے ہوئے، ایک سوچ وفکراورایک جذبہ دل میں لیئے، اُس سامراج کو شکست دینےکیلئےسرپرکفن لیئےگھومتا پھرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں نےبہت سے لوگوں کی ذہن سازی کی ہوئی ہے۔ میرےشہید ہونے سے سامراج میری سوچ کومٹا نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ سوچ نہ ختم ہونےوالی سوچ ہوتی ہے۔ جن کی ذہن سازی ہوئی ہوتی ہے۔ اُن کی سوچ وہ تبدیل نہیں کرسکتا۔ اسی اُمید پرہی وہ اپنےکارواں کو آگے لے جانے پر سربکفن ہوجاتاہے اوریہی اُمید اُس قوم پرست کوتناوراورمضبوط درخت کی مانند بنادیتا ہے۔ جس کوکوئی بھی طوفان گرانہیں سکتا۔

قوم پرست جیسے انمول شخصیات، ہر قوم کو بآسانی نصیب نہیں ہوتیں، بلکہ اس کیلئےقوموں کوہزاروں سالوں تک کا مسافت طے کرنا پڑتا ہے۔آخرکار کہیں سو میں ایک جو اُس مُقدس ڈورمیں ایک دانےکی مانند پَرو دیا جاتا ہے۔ اوراُس ڈورکومضبوطی سے تھامےاپنےاُس دشمن کوہر روز وہ شکست سےدوچارکرتاہے۔ انہی انقلابی وعدہ پرست اورقوم دوست انسانوں کی وجہ سےانسانیت کے ترقی کا ڈور کبھی نہیں ٹوٹتا۔
میرےکاروان میں شامل کوئی تنگ نظرنہیں
جونہ مٹ سکےوطن پرمیراہمسفرنہیں

دنیا میں مختلف ادوارمیں مختلف جنگیں لڑی گئی ہیں، جن میں مختلف اقوام کو شکست سےدوچار ہونا پڑا اور انہی جنگوں میں ہزاروں لوگوں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھوناپڑا۔ کئی سالوں تک آزادی سےمحروم رہے۔ پھراُنہی اقوام میں قوم پرستوں کاجنم اُن اقوام کیلئےمقدس رہا۔اُنہوں نےاپنےاقوام کیلئے سامراجیت کامنہ توڑمُقابلہ کرکےاپنے جانوں کانظرانہ پیش کیا۔ نہ صرف اُن اقوام کوآزادی دلائی بلکہ اُنہوں نےاپنےلیئےایک تاریخ رقم کی۔

قوم پرست کوہرانے کیلئے سامراج ہر حربہ آزماتا ہے لیکن اُس کی ہر کوشش بیکار جاتی ہے۔ سامراج کیلئے بیرونی،اندرونی دونوں اطراف سے سوالوں کا پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے، پھروہ اپنی رتی بھر عزت اور تخت وتاراج کو بچانے کیلئے ہروہ گہناونی حرکات پر اُتر جاتا ہے، جونہ صرف اُس ملک کی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے۔ اس پراُس سامراج سےاُن غریبوں اورضعیف العمر عوام کی چادر اور چاردیواری کی پامالی کے بارے میں بہت سےسوالات اُٹھائےجاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطیوں کا مداواکرے۔ وہ اور مظالم پر اُتر جاتا ہے، وہ جو کچھ بھی کرتاہے، اُن پرچوروں کی طرح کنارہ کشی کرکے سچائی سے انکار کرتا ہے۔ اُس کی انہی اقدامات کیوجہ سے اور قوم دوست وجودمیں آتےہیں۔

قوم پرست کے سامنے، اس کا دشمن چاہے کتنابھی طاقتور کیوں نہ ہو۔ چاہے دشمن کتنے ہی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کیوں نہ ہو۔ وہ سچائی کو کبھی بھی مات نہیں دے سکتا۔ ظالم ایک قوم پرست کو فنا کرکے یہ بھول بیٹھتاہےکہ میں نے مظلوم کو شکست دے دیا۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ میرے اِس اقدام سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اُٹھیں گےاور یہی سامراج کی سامراجیت کے شکست کا باعث بنتی ہے۔

قوم پرست کیلئےظالم کو شکست دینا پیاس بن جاتا ہے۔ یہی پیاس بُجھانےکیلئےاُسے ہزاروں ظالموں کومارنا پڑتا ہیں۔ اُس سامراج کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے، ہر کٹھن اور دشوارگذار راستوں سے گذرتا ہے۔ یہ دشواریاں اُس قوم پرست کے موقف کو نہ صرف مضبوط بلکہ ایک نہ بجھنے والی مشعل کی مانند بنادیتی ہے۔

قوم پرستوں کو کسی بھی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنے بازووْں اور اپنے رب پر یقین رکھتا ہے۔ قوم کے اُن لوگوں پر جو اُن کے سوچ کے حامی ہوتے ہیں۔ اسی یقین اور بھروسے کے بناء پراللہ تعالٰی کا غیبی مدد اُن کے ساتھ ہوتا ہے۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس مقدس فرض کیلئے ہرسُو چاک وچوبند رہتا ہے، کسی خطرے کی پرواہ کیئے بغیر، وہ اپنےجنگ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے راستے کے ہر کانٹے صاف کرلیتا ہے اور اپنے کاروان کو جاری رکھتا ہے، آخری سانس اورخون کے آخری بوند تک۔۔۔۔۔۔

توپہ سر آنی گُڈگ ءَ زندءِ حیالاناں کشءِ
پہ سندگ ءَداشت کن ئےپُھلاں چہ بوُتالانیا