28مئی اور بلوچستان
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
صرف ایک 28 مئی نہیں آپ کا دشمن اپنی سفاکیت دکھانے میں کوئی دن ایسا نہیں چھوڑے گا، جس میں آپ کو تکلیف اور رنج نا ہو۔ دشمن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ آپ کو ستائے دکھ اور تکالیف میں مبتلا کرے، دراصل آپ کی اذیت سے ان کو سکون ملتا ہے اور کبھی وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جس سے ان کے سکون پر حرف آئے۔
یہی حال ہمارا بھی ہے ایک جہد کار کے علاوہ ایک عام بلوچ دشمن کو ملنے والی معمولی سے معمولی ضرر پر خوش ہوتا ہے، حتیٰ کہ کسی باشعور گداں نشین بلوچ کو معلوم پڑے کہ دشمن پہ حملہ ہوا یا اس کو نقصان پہنچا ہے تو گویا اسے قلبی سکون ملتا ہے۔ یہ ایک آفاقی امر ہے، اس سے فرار ممکن نہیں کہ جو دشمن سوچتا ہے وہی آپ بھی سوچتے ہیں کیوںکہ آپ کا مخالف اور جو آپ کو اذیت دے رہا ہے، وہ آپ کا دشمن ہے تب آپ بھی ان کو دوست نہیں رکھتے، آپ ان کو ہمیشہ اسی پیمانے پہ ناپتے ہیں جہاں دشمن ہوتا ہے۔
28 مئی کو دشمن کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے لیئے بلوچ گلزمین کا انتخاب محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے دشمن کا باقاعدہ پلان تھا۔ ایک تو وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، دوسرا ایٹمی دھماکوں کی تابکاریوں سے ہر ممکن حد تک اپنے شہریوں کو تحفظ دینا بھی اس کو مقصود تھا۔
جوہری تجربات کے بعد چاغی کا پہاڑ قتل ہوا، تو اس کے مضر اثرات سے بلوچ بہرصورت غیر محفو ظ رہا۔ چاغی اور قریبی علاقوں میں کینسر جیسے موذی مرض کا شرح بڑھ گیا اور وہاں پہ پیدا ہونے والے نومولود آج بھی مختلف جسمانی بیماریوں اور دیگر موذی امراض ساتھ لے کر جنم لیتے ہیں۔ گرمی کی شدت اور زیر زمین پانی کی کمی بھی تابکاری کے اثرات سے ماورا نہیں ہوسکتے، وہاں کی زمین کوئی فصل نہیں دے سکتی اور نا لوگوں کے رہنے کے قابل ہے۔
چاغی میں انڈیا کے ردعمل میں جوابی دہماکے ہمارے لیئے ایک پیغام ہیں کہ بطور دشمن پاکستان کوئی معمولی موقع ہمیں تکلیف اور رنج پہنچانے کے لیئے ضائع نہیں کرتا، ان کا ہر عمل اور جوابی عمل ان کے منصوبوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی طرح ایک بے قاعدہ اور غیر منظم جنگ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ایک منظم سوچ اور شاطرانہ حکمت عملی کے ساتھ بلوچ گلزمین پر حملہ آور رہنا ہے۔
ہماری غیر منظم جنگ اور حکمت سے آری اقدامات ان کے لیئے رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتے ہیں، ہمیں یہ حقیقت جلد سمجھ لینی چاہیئے کہ ہمارا دشمن قطعاً بیوقوف نہیں، جیسا کہ ہم اسے سمجھ رہے ہیں۔ در اصل وہ ہر حوالے سے ہماری کمزوریوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹ کر کم قیمت پر ہمیں زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ زبانی دعووں کے برعکس، ہمارے پاس دشمن کے مقابلے میں منظم حکمت یا ان کے شاطرانہ جنگی چالوں کے مقابلے میں کوئی پیچیدہ چال نہیں، جس سے ہم انہیں زیر کرسکیں۔ آج یا بہت جلد جتنی کم وقت میں ہم اپنے دشمن کی جنگی چالوں، شاطرانہ حکمت عملی اور منظم منصوبوں کا ادراک کرکے انہیں قبول کریں، ہمارے لیئے سود مند ہے، تب ہی اس پائے کی طاقت پانے کی جستجو ہم میں ہوسکتی ہے۔