سیندک کی پُھول جیسی بیٹی ماریہ کینسر کا شکار – کاظم بلوچ

438

سیندک کی پُھول جیسی بیٹی ماریہ کینسر کا شکار
تحریر _ کاظم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سیندک جو تفتان سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر بے آب و گیاہ ایک وادی ہے جہاں کسی دور میں انگریز فوج کا قلعہ تھا اور یہ علاقہ بلوچ سپاہی عیدو پہلوان ممسنی کے بہادری و طاقت کے قصوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے اور پچیس کلومیٹر کی دوری پر ایران بارڈر لائن ہے۔

1974 میں یہاں تانبے اور سونے کی دریافت کے لیے سروے شروع ہوا اور چند وقت کے بعد جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور غیر ملکی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کا پاکستان کی سطح پر ایک بڑے کاپر اینڈ گولڈ ڈیپازٹ کا دریافت ہُوا؛ جس پر مشرف دور میں باقاعدہ کام کا آغاز ہوا اور گذشتہ پندرہ سالوں میں یہاں سے سونے چاندی اور کاپر کی پانچ سو بلین ڈالر کے ذخائر نکالے گئے اور بقول سابق سینیٹر ثناء بلوچ صرف پچپن ارب روپے کا سونا یہاں سے نکالا گیا ہے۔

مگر یہاں کے باسی آج بھی ہیلتھ کی سہولیات و ڈاکٹر سے محروم ہیں، سرجن آرتھوپیڈک فزیشن ایکسرے ایم آر آئی و الٹراساونڈ کی سہولیات اور آپریشن تھیٹر بہت دور کی بات ہے۔
کینسر ہمارے ضلع و بلوچستان میں بڑی تیزی سے پھیل چکی ہے، کینسر نے کئی پُھول نونہال چھین چکا ہے؛ مگر اب تک یہ ناسُور ہمارے آس پاس کئی معصوم پھول نونہال اس مرض کا شکار ہیں۔ مگر بلوچستان میں سیندک ریکوڈک سوئی گیس سی پیک گوادر کے باوجود اس صوبہ کے باسیوں کو کینسر ہاسپیٹل کی سہولت میسر نہیں ہے، جہاں اس مرض ناسُور کو علاج کیا جاسکے۔

ایک سیکریٹری یا وزیر گزیر کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوتے ہیں، مگر صوبائی اسمبلی و بلوچستان کے ایم پی ایز کو یہ نہیں سُوجتا کے یہاں کے مفلوک الحال لوگوں کے لیئے کینسر ہاسپیٹل بنایا جائے؛ اب سونے چاندی کے وسائل کے مالک ایک معصوم بچی ماریہ اس جان لیوا مرض بلڈ کینسر کا شکار ہےاور اس نونہال بچی کو یہ پتہ بھی نہیں کہ وہ بستر پر پڑی موت و زیست کی جنگ لڑ رہی ہے۔

اس کے آس پاس اس کے بھائی اس کی مرض کا سُن کر یقیناً تڑپ رہے ہونگے، مگر اس کی عملی مدد کو کوئی نہیں آرہا، سب کے قلم کی سیاہی سوکھ چکے ہیں، سب کے قلم کے قلم کینسر زدہ ہوچکے ہیں، جو اس گُڑیا کے لیئے سامنے آئے۔ یہ بچی ایک ایسے خوش قسمت خطے و علاقے میں پیدا ہوئی ہے، جو سونے چاندی کے ذخائر سے مالا مال ہے مگر کفِ افسوس کہ ایک ایسا خطہ ایک ایسا پروجیکٹ جہاں روزانہ منوں ٹنوں کے حساب سے سونا چاندی جواہر نکالے جارہے ہوں اور اسی علاقے کی معصوم بچی کراچی کے کسی ہاسپیٹل میں موت و زیست کی جنگ لڑرہی ہے، جس میں شکست اس معصوم کی ہوگی کیونکہ اس کے سرزمین کے والی وارث اس کے بھائی اس کے کام نہیں آرہے اس کے سرزمین کے سیاسی وارث آپسی کھینچا تانی و مراعات کے لیے گھتم گتھا ہیںم اس سرزمین کے بچے بچیاں روزانہ کی بنیاد پر خود کو سُپرد کینسر کررہی ہیں مگر ان مستقبل کے نونہالوں کی داد رسی کو کوئی نہیں آرہا۔

کوئی ہے جو اس پُھول جیسی پٙری کے ہاتھ تھامے اس کے علاج کے لیے آگے آئے؟ تاکہ یہ بچی ایک دن؛ سماجی ورکر سیاسی لیڈر ؛ اُستاد ؛ پروفیسر ؛ ڈاکٹر بن کر اپنے معاشرے اپنی قوم قبیل کی خدمت کرسکے۔ بلوچستان کی سول سوسائٹی؛ پولیٹیکل سوسائٹی ؛ جرنلسٹس سب کو ننھی پری بی بی ماریہ بلوچ کی مدد اور علاج کے لیے آگے آنا چاہیئے اور سب مل کر بلوچستان میں کینسر ہاسپیٹل کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تاکہ اس ناسور کو شکست دی جاسکے، جو ایک خاموش صورت میں ہم سے ہمارے بچے بیٹے بھائی والدین بزرگ چھین رہی ہے۔

آخر میں میرا بلوچستان کے دو شخصیات سے گزارش ہے کہ بی۔ بی ماریہ بلوچ کے علاج کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اول سردار آختر جان مینگل جنہوں نے ریحان رند؛ سنگت شہہ مُرید مینگل کے علاج کے لیے ذاتی طور پر کردار ادا کیا۔ اُمید ہے کہ سردار آختر جان مینگل وطن کی ننھی پری مار جان کے لیے اپنا قومی کردار ادا کریں گے

دوئم سردار یار محمد رند صاحب جو کہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر بھی ہیں اور شوران میں تعلیمی حوالے سے سکول بناچکے ہیں اُمید ہے کہ کینسر ہاسپیٹل کے لیئے بھی اپنا کردار ادا کریں گے جبکہ بی بی ماریہ بلوچ کو شوکت خانم ہاسپیٹل میں علاج کروانے میں اپنا کردار ادا کرکے اپنا فرض ادا کریں گے۔ تاکہ اس طرح کی ننھی پریاں ہمیں چھوڑ کر الوداع نہ کہیں، جن کے جانے سے ہمارے دل جگر سوزاں ہوں۔

سونے چاندی جواہرات کی سرزمین کی معصوم ننھی پریاں بن کھلے واپس سُپرد ءِ طلاء خاک نہ ہوں، ایسے وسائل کس کام کے جن سے اس کے باسی ننگے بُھوکے ہوکر پیٹ پر پتھر باندھ کر زندگیاں گزاریں جبکہ وسائل دیارِ غیر کو آسودہ۔ حال بنائیں اور ننھی منھی پریاں تڑپ تڑپ کی جان بلب ہوکر جان دے دیں اور واپس سونے چاندی کے سنگ و خاک میں دفن ہوں۔۔۔۔۔
اتنا ہی کہنا کافی ہوگا
کہ۔
جس کھیت سے میسر نہیں دہقان کو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو