رضا محمد کی بکری _ تحریر: گلپان بلوچ

660

رضا محمد کی بکری

                  تحریر: گلپان بلوچ

وہ بہت ہی سنجیدہ انداز میں اپنی بکری کی گمشدگی کے اطلاع سوشل میڈیا پر دے رہا تھا، اس کے رویے سے یہی پتہ چل رہا تھا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ بھلا کیوں نہ ہو، جب کوئی قریبی پیارا غائب “بیگواہ” ہوجائے، تو کتنا گراں گذرتا ہے، یہ وہی جانیں، جن کے ہاں کوئی پیارا گُم ہو گیا ہے اور جس خطے میں رضا محمد رہتے ہیں، وہاں بہت سارے ایسے رضا محمد ملیں گے، جو شاید سالوں سے کسی کے انتظار میں بیٹھے، اب یہ طے کر چکے ہیں کہ جب تلک زندگی ہے تب تک انتظار ہی کرتے رہیں گے۔ وہاں جہاں علی حیدر جیسے کمسن بچے ریڑھی پر کچھ تصاویر رکھ کر دو ہزار کلومیٹر کی مسافت محض اس لیے پیدل طے کرتے ہیں کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انکے پیارے سالوں سے کہاں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔

خوش نصیب ہیں رضا محمد جیسے لوگ جنہیں اپنے پیارے کچھ ہی دنوں میں واپس صحیح سلامت مل جاتی ہیں ورنہ رضا صاحب تو کسی ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں اُٹھائے تو زندہ اور سلامت انسانیں جاتی ہیں مگر واپس صرف کٹی پھٹی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، جہاں اجتماعی قبریں ملتی ہیں، جہاں “ایک کٹورے پانی کی قیمت تو سو (۱۰۰) سال وفا ہے” مگر ایک بوند پانی کے لیے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں اور جہاں سالوں تک آپ کو کوئی بھی یہ بتانے کی زحمت محسوس ہی نہیں کرے گا کہ آپکا پیارا گیا تو گیا کہاں؟
رضا محمد بلوچستان نامی کسی دورافتادہ خطے کے گوادر نامی علاقے میں رہتے ہیں، دوکان چلاتے ہیں اور اپنی بکری سے پیار کرتے ہیں اور روزانہ گھر سے دوکان جاتے ہوئے پتا نہیں چیک پوسٹوں پر منڈلاتے ہوئے کتنے “بلاؤں” سے روز اپنی شناخت کرواتے ہیں، مگر اب بھی انہیں کوئی نہ جانتا ہے نہ پہچانتا۔
آپ شاید گوادر کو کسی “سی پیک” نامی بلا کی وجہ سے جانتے ہوں یا “دو نمبر” سنہرے مستقبل کی کرن یا پھر کچھ اور جس کی تشریح شاید آپ خود ہی نہیں کرسکتے۔ مگر گوادر تو حمل جیئند کی سرزمین ہے، جو چاہے جتنی بھی بڑی طاقتور حاکمیت ہو، اسکے سامنے سر جُھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دیتا ہے، جو محض لالچ اور چند مراعات کے عوض “ماتیں گلزمیں” کا سودا نہیں کرتا۔

یہاں کے پاک زمیں نے سید ہاشمی جیسی ہستیاں پیدا کی ہیں، عبدالمجید گوادری جیسے استاد بنائے، شھید لالا حمید جیسے انقلابی صحافی پیدا کیئے، شھید کامریڈ قیوم جیسے لیڈروں کو جنم دیا، شھید احمد داد و ان جیسے سینکڑوں گمنام بلوچ فرزند جو اپنے لہو سے تاریخ کے صفحوں پر سنہرے لفظوں میں قربانیوں کے داستاں رقم کرنے کا عزم رکھتے ہیں، گوادر تو آرٹسٹوں، اداکاروں، افسانہ نگاروں، شاعروں، دانشوروں اور علم و ازم سے جُڑے لوگوں کی بستی ہے، گوادر تو بلوچ، بلوچی و بلوچستان کو تا ابد زندہ رکھنے کی کاوش، کوششوں و قربانیوں کی اک باب ہے، شاید اسی لیئے استحصالی قوتیں اپنے قابض پنجے یہاں گھاڑنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اس باب کو بند کر سکیں، اور بلوچوں کو بلوچ ہونے کی سزا دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، گوادر کو چھاونی بنا کر نوآبادیاتی منصوبوں کے ذریعے بلوچوں کو کالونی میں بند کر کے انہیں انہی کے زمین پر اقلیت میں تبدیل کردیں ـ

یہ تو ہوگئی گوادر اب واپس آتے ہیں رضا محمد کی بکری کی طرف جہاں لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سالوں در در کی ٹھوکریں کھا کر بھی مایوس ہوکر بس انتظار کرتے ہیں، جہاں سینکڑوں دلّاروں، وزیروں و چمچوں سے رحم کی بھیک مانگنے پر بھی آپ کو یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ آپ کا پیارا زندہ بھی ہے یا نہیں وہیں رضا محمد کا پیارا سوشل میڈیا میں اطلاع دینے کے دوسرے یا تیسرے دن ہی خود گھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

وہاں (گوادر سمیت بلوچستان) جب بھی کوئی غائب ہوتا ہے، تو شک کی سوئی سیدھا میلوں دُور پنجاب کے محافظ فوج و انٹلیجنس ایجنسیوں پر جاتی ہے، مگر رضا محمد کے بکری کے سلسلے میں ایسا نہیں ہوا، شاید یہ پہلی بار ہوا کہ جب کوئی بلوچ سوشل میڈیا میں اپنے کسی پیارے کے گمشدگی کی اطلاع دینے آیا ہو اور شک پاکستانی ایجنسیز پر نہ ہو، اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ رضا محمد کی بکری بلوچ نہیں! خوش قسمت ہے۔