کابل : ہوٹل حملے میں ہلاکتوں کی تعداد30 سے تجاوز ، طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی

254

کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے تمام 5 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا، تاہم کراچی میں افغانستان کے قونصل جنرل کے بھی حملے میں مارے جانے کی متضاد اطلاعات ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صحت عامہ کی وزارت کے ترجمان واجد مجروح کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد 19 لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، جس میں 6 غیر ملکی بھی شامل تھے، تاہم افغان سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد 30 سے کہیں زیادہ ہے۔

دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے حملے میں ہوٹل اسٹاف، مہمانوں سمیت سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ تمام 5 حملہ آوروں کو بھی آپریشن کے دوران مار دیا گیا۔

خیال رہے کہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد عمارت کے مختلف حصوں میں آگ لگ گئی تھی، جس میں 150 سے زائد مہمانوں نے بھاگ کر جان بچائی، کچھ مہمان چادروں کے ساتھ کھڑکیوں سے نیچے اترے اور کچھ کو افغان فورسز نے ریسکیو کیا۔

مقامی ایئر لائن کام ایئر کا کہنا تھا کہ ان کے 40 کے قریب پائلٹ اور عملے کے لوگ اس ہوٹل میں مقیم تھے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے جبکہ ان میں سے 10 سے زائد کو ہلاک کردیا گیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق مرنے والوں میں وینزوویلا اور یوکرائن کے لوگ بھی شامل ہیں۔

ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی، خیال رہے کہ 2011 میں بھی طالبان کی جانب سے اس ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا۔

تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں اس حملے کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک کو قرار دیا جارہا ہے، جن کا ایک گروپ شہری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ ہے۔

اس حوالے سے ہوٹل میں موجود ایک مہمان عبدالرحمٰن نسیری کا کہنا تھا کہ حملہ آور فوج کے لباس میں ملبوس تھے جبکہ وہ پشتو میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑنا، سب کو ماردینا کہہ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا وہ فوراً اپنے کمرے کی جانب گئے اور کھڑکی سے باہر چھلانگ لگانے کی کوشش کی، جس کے نیتجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغان دارالحکومت میں جس ہوٹل پر حملہ ہوا وہ 1960 سے قائم تھا جبکہ اس حملے کے بعد پورے شہر میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے گئے۔

ٹیلی کمیونکیشن کی وزات کے حکام احمد وحید کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ ہوٹل شہر کے دو لگژری ہوٹلز میں سے ایک ہے اور یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کانفرنس ہورہی تھی اور جب حملہ ہوا تو اس وقت 100 سے زائد آئی ٹی منیجر اور انجینئرز وہاں موجود تھے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دنیش کا کہنا تھا کہ تین ہفتوں سے ہوٹل کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ایک نجی کمپنی کی تھی اور ان سے ان کی ناکامی پر تفتیش کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کی جانب سے پہلے ہی آگاہ کیا جاچکا تھا کہ کابل میں ہوٹلوں پر ممکنہ حملہ ہوسکتا ہے۔

ہوٹل منیجر احمد حارث نایاب کا کہنا تھا کہ حملہ آور کچن کے راستے سے ہوٹل کے مرکزی حصے میں داخل ہوئے، جس کے باعث متعدد مہمان اپنے کمروں میں محصور ہوگئے تھے۔

دریں اثناء گزشتہ روز افغانستان کے صوبے ہیرات میں سڑک کنارے بم نصب پٹھنے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ شمالی صوبے میں چیک پوائنٹ پر مقامی ملیشیا کے 18 افراد کو بھی ہلاک کیا گیا۔