سیاہ کاری ـ زرک میر

555

یہ شہر وطن کا مرکزی شہر کہلاتا ہے ۔ شہر میں قلعہ قائم ہے جہاں میروں کی حکومت قائم ہے ۔ قلعے کے شمال اور مشرق میں باقی شہر آباد ہے ۔شہر کیا ہے ایک تاریخ کادھارا ہے۔ ایک تہذیب کا گہوراہ ہے۔ مختلف قبائل آباد ہیں۔ ایک بڑی نہر (جو ) شہر کی طرف آتی تھی جس سے پینے کے پانی کے علاﺅہ فصلیں کاشت کی جاتی تھیں ۔اس شہر میں لوگوں کی اکثریت کسی نہ کسی طرح کاشتکاری سے منسلک تھی تب دووقت کے کھانے کے لالے اس قدر نہ تھے ۔لوگ پکے سماجی بندھن میں بندھے ہوئے تھے اور لوگ ایسے رسم ورواج کے سختی سے پابند تھے ۔سب لوگ ان رسم ورواج کو اپنے لئے مہان سمجھتے تھے ۔ شادی بیاہ میں نسلوں کی پرکھ ، دوستیوں میں اقدار کی جانچ ،علاقوں کی تفریق لازمی ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں بادشاہوں سرداروں اور امراءکا تعین اور مرکزیت ضروری ہوتی ہے ۔ اس شہر میں بھی میروں کی حکومت تھی قلعہ کے مشرق میں میروں کی ایک بڑی حویلی ہے اور اس حویلی کے اندر عمارتیں قائم ہیں جن میں وہ اہل وعیال کیساتھ رہتے ہیں۔جن کے ہاں بھی یہی نصیحت ملتی تھی کہ ہم عزت کیلئے جیتے اور عزت کیلئے مرتے ہیں اور ہمارا قبائلی نظام ہماری عزتوں کا محافظ ہے۔ قلعہ کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی مسجد قائم ہے ۔مسجد کے مولوی غفور کی میروں کے ہاں بڑی عزت تھی جو خود بھی سماج کے رسم ورواج اور قبائلی روایات کا امین تھا ۔ ان کا خطبہ شریعت اور قبائلیت کے حسین امتزاج پر محیط ہوتاتھا۔

اس علاقے میں لوگ غیرت کے لئے جیتے تھے اور مرتے تھے خود ان کی زندگی کا مقصد یہی تھا ۔جب بھی مشکل پیش آتی تو یہ اپنی غیرت کے سوغند کو بارباردہرا کر اپنی بیداری کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔یوں کہیئے کہ ان کے ہاں عزت کے ان کے اپنے معیار تھے ۔اور غیرت کا معیار ننگ پر قائم تھاان کے ہاں بھوک اور افلاس پر غیرت کو ترجیح تھی اور یہ موت کو قبول کرتے لیکن غیرت اورننگ پر کوئی بات برداشت نہیں کرتے ۔جی ہاں ان کے ہاں سیاہ کاری(مﺅن کننگ) کی روایت قائم تھی ۔ کوئی عورت اورمرد آنکھیں چار کرتے تو قتل ہوتے ۔اس قتل کو جائز قراردیاگیاتھا ۔اورپھر اس سے آگے یہ روایت کے سیا ہ کاری پر قتل ہوئی عورت یا مرد کی کوئی شان باقی نہ رہتی۔ ان کی نہ کوئی نماز جنازنہ کوئی قبرہوتی ہے۔دونوں کی لاشیں پہاڑ کی کھائی یا کسی کھڈے میں پھینک دی جاتیں ۔ لوگ پیچھے مڑکربھی نہیں دیکھتے ۔ان کے ماں باپ بہن بھائی اولادیں بھی ان کے قتل کو جائز قراردےتے اور ان کو پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھتے ۔یہ روایت بہت پکی تھی ۔اس قدر پکی کہ کوئی سال کسی ایسے واقعہ سے خالی نہ جاتا ۔اگر کوئی اپنوں کی لاشوں کیساتھ زیادہ سے زیادہ ہمدردی جتاتا تو وہ اس پر زیادہ مٹی ڈال کر اس کو ڈھکنے کی کوشش کرتا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آتی کوئی ایساکرکے اپنے سربے غیرتی کا الزام سہنا نہیں چاہتا ۔یہ ایک گمنام قبرستان بن چکاتھا جو علاقے کے شمال میں پہاڑ کی کھائی کے نیچے قائم تھاکوئی جوڑاسیاہ کاری( مﺅن مننگ) کے عمل سے دوچار ہوتا تو انہیں لاشیں اسی کھائی سے گرائی جاتیں اور بس قصہ ختم ۔ لیکن انسان اپنی سرشت کے سامنے بے بس ہے ، ہجوم میں آکر تو سب ان لاشوں کو کھائی سے پھینک کر جاتے لیکن کچھ نوخیز نوجوان جن کوسیاہ کاری کے نام پر قتل پر زیادہ تجسس ہوتا تھا کیونکہ ان کیلئے مرد اور عورت کا ملاپ ایک نیا جذبہ تھا جس پر وہ ایسے قتل ہوتا دیکھ کر اپنے اندر سیکس کی انگڑائی لئے اس جذبے کو دبانے پر مجبورتو ہوتے لیکن پھر چھپ کر لاشیں دیکھنے نکل آتے یا کچھ ایسا طبقہ بھی تھا جو روایات کے اس چکر میں یوں بھی نہ پڑتا کہ وہ سماج کا انتہائی غیر موثر لوگوں پرمشتمل ہوتا جو عزت کی دوڑ میں شریک ہی نہیں تھے ۔ سیاہ کاروں کی لاشیں گرائی جاتیں ،تو عزت داروں کا بوجھ ہلکا ہوجاتا کیونکہ سماج میںعزت دار ہونے کیلئے یہ خراج لازمی امر تھی ۔اگر کوئی اپنے پیارے پر گولی نہیں چلاسکتا ہو تو دوسرے اس کا کام آسان کردیتے لیکن اس کی نوبت بہت کم آتی کہ عزت کے ساتھ رہنے کیلئے یہ قدم اٹھانا لازمی امر تھا یہ ایسے معاشروں کا لازمی امر ہوتا ہے کہ ان میں ایسی بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس بغاوت کے نرغے میں کچھ ایسے بھی آتے جو کسی بغض ا ور عداوت کی بناءپر اس رسم کے بھینٹ چڑھ جاتے ۔

میروں کی حویلی میں میر زادیاں یوں تو کسی ایسی عزت کے معاملے سے دوچار نہ تھیں کہ ان کا پلوکو ئی دیکھ ہی نہیں سکتا تھاجہاں بڑی بڑی دیواروں کے پس پردہ رہنے والیوں پر کسی غیر کی نظر کیسے پڑ سکتی تھی تب ہی میروں کی عزت محفوظ تھی ۔ ان میرزادیوں کی شادیاں اپنوں میں ہی ہوتیں یا پھر ہمسائیہ شہروں اور وطن کے بڑے بڑے اپنے جیسے میروں کے گھروں میں بہائی جاتی تھیں ۔بڑی بڑی دیواروں کے اندر ان میرزادیوں کو ہر آسائش حاصل تھی ۔یوں یہ میر کہلاتے تھے یونہی میر کہلوانا آسان تو نہ تھا اور عزت کے تحفظ میں کامیابی ہی میر کہلانے کا استحقاق بنتا تھا ۔شہرکے دوسرے لوگوں کی عزتوں کے فیصلے یہ میر کرتے تب یہ میر جب تک اپنی عزتوں کو تحفظ کرنے کا اہل ہوتے تو دوسرے ان کو اپنی عزتوں کا فیصلہ کرنے کا اختیاردیتے ۔ میرزادیاںشہر کے دوسرے لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتےں ۔ کسی کے خوشی ور غم میں کسی طور شریک نہیں ہوتی تھیں لوگوں نے بھی کبھی تقاضہ نہیں کیا۔ تب ان کی آنکھیں بھی یہاں شہر میں کسی سے چار نہ ہوپاتی تھیں اور نہ ہی غیرت کا کوئی معاملہ بنتا۔ان میرزادیوں کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ ایک ہی تھا اور وہ ذریعہ تھا حویلی میں کام کرنے والی مائیاں۔ تب شہر والوں کو ان مائیوں کے ذریعے ہی معلوم پڑتا تھا کہ میر ولی داد کی کتنی بیٹیاں ہیں ؟ میر بی برگ کی کتنی بیویاں اور بچے ہیں ؟اور میر ہزار کی منگیتر کتنی خوبصورت ہے ۔یہ بہت نازک معاملہ تھا ۔یہ راز باہر کسی کو پہنچانا بہت خطرناک تھا ملکی راز جیسا ۔ کام والی کسی مائی سے کوئی تجسس کا مارا نوجوان پوچھ بھی لیتا تو مائی کسی اور کو نہ بتانے کی ہزار قسمیں لیتی تب کہتی کہ میر ولی داد کی بڑی بیٹی گوہرناز بہت خوبصورت اور دلکش ہے ۔ بی برگ کی چھوٹی بیٹی سمو تو پری ہے پری۔سمو کے بال کٹے ہوئے ہیں اور وہ گھر میں بغیر دوپٹے کے گھومتی ہے تو اس کے بال ہواﺅں میں لہراتے رہتے ہیں ۔بڑے شہر سے اپنے لئے کپڑے لاتی ہے جسم سے چپکے ہوئے ان کپڑوں پر کشیدہ کاری نہیں ہوتی ۔بالکل لڑکا معلوم ہوتا ہے اور میرشیرجان کی نئی نویلی دلہن تو حور جیسی ہے ۔ ایسی زیورات پہنتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسے زیورات نہیں دیکھے ۔رنگ برنگ کے کپڑوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں ۔ یہ میر اور میرزادیاں دوسرے شہر کے میروں کے گھر مہمان بن کرجاتے ہیں اور وہ یہاں آکر مہمان بنتے ہیں۔ایک دوسرے سے پردہ تک نہیں کرتے ۔ان کے بڑے لڑکے بڑی لڑکیوں سے یوں کھیلتے ہیں کہ ہمارے بچے آپس میں کھیلنے سے شرما جائیں ۔اللہ نے دولت عزت اور شہرت کیساتھ ساتھ خوبصورتی بھی ان بادشاہ لوگوں کو ہی عطاءکی ہے۔ ہزار قسمیں لینے والی مائی منہ میں رس بھر بھر کے میر زادیوں کی خوبصورتی کی تعریفیں کرتیں اور سننے والے کو مزید تجسس اور حسرت میں ڈوبتے دیکھ کر مزید کچھ بتانے کا تاثر دیکھ کر چھپ ہوجاتی جب منت سماجت بڑھ جاتی تو پھر سے کچھ تعریفیں کرکے اپنی اہمیت جتاتی ۔ لوگ یہ سن کر حسرت کرتے کہ یا خدایا حویلی کی ان میر زادیوں کو جی بھر کے دیکھنے کا موقع کب ملے گا۔یہ حور ہیں یا پری جو ایسی ہیں ۔عجیب دستور ہے کہ ایک شہر میں ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم انہیں نظربھر دیکھنے سے بھی محروم ہیں۔گاﺅں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاںیہ سوچ کر سرد آہیں بھرتیں۔ نوخیز نوجوان جب کسی مائی سے ”حویلی “ کے اندر کی باتیں سنتیں تو وہ مچل اٹھتے ،کچھ نوجوان میروں کے اردگرد گھومتے رہتے کہ کہیں حویلی کے اندر کام مل جائے لیکن وہاں کام کرنے کاشرف بھی ان لوگوں کو حاصل تھا جو نسل درنسل حویلی میں باپ داداﺅں سے کام کرتے آئے ہیں ۔

زبیر ان خوش قسمت نوجوانوں میں سے تھا جو اپنے باپ کے بعد حویلی میں کام کرنے کی اجازت پاچکاتھا۔

میرزادیاں یونہی حویلی میں رہیں کہانی پریوں کی طرح جو علاقے والوں کیلئے پریاں ہی تھیں جو تھیں بھی اور نہیں بھی ۔ایک طرف میروں کے ہاں تو عزت بڑی بڑی دیواروں کے اندر محفوظ تھی اور پھر میرزادیوں کی طرف دیکھنے کی جرات بھی کون کرسکتا تھا دوسری طرف عام لوگ جواس حویلی سے باہر نسبتا پست قد چاردیواریوں میں رہ رہے تھے۔ مقابلہ سخت تھا گویا انہیں بے ہتھیار ہوکر بے غیرتی جیسے ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرناتھا اور ان دیکھے عزت کی رکھوالی کرنا تھی ۔عجب منظرتھا اور آج بھی ہے کہ آسائش اور وسائل میں زمین آسمان کا فرق دوسری طرف عزتوں کا مقابلہ برابر۔ جب ایسے سماج میں عزت کی بالادستی کے لئے عورت کو استثنیٰ نہیں تو مرد بھی اس استثنیٰ سے قطعی مبرا نہیں ۔تب جب عورتیں اپنے مردوں کو جنگوں میں عزت کماتے ہوئے کٹ مرتے دیکھتی ہیں تو اپنے قتل پر وہ بین بھی نہیں کرسکتےںگویا جہاں قربانی کا پیمانہ برابر ہو تو کیا مرد کیا عورت سب کا خراج ضروری ہے ایسی روایات پر بغاوت بہت دیر بعد ہوتی ہے کہ سیاہ کاری میں بھی عورت کیساتھ ایک مرد قتل ہوتا ہے۔
اب گاﺅں کا واحد نوجوان زبیر ہی حویلی میں کام کرنے لگا تھا جوگاﺅں کا خوش قسمت نوجوان تھا وہ بھی بچپن سے اپنے باپ کیساتھ حویلی میں کام کرتا رہا ہے تو اب بھی اسے حویلی میں کام کرنے کی اجازت تھی ۔یہ اس سماج کے اعتماد کا معیار تھا کہ اگر کوئی گھر میں کام کرے پلے بڑے تو اس سے پردہ کیسا ؟ لیکن انسان کے بنائے ہوئے اصول فطری اصولوں کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔زبیر کی دوآنکھیں حویلی میں چار ہونے کیلئے کافی تھیں ۔سمو کھلے بالوں کے ساتھ جب حویلی میں گھومتی تھی تو زبیر کی آنکھیں پٹی کی پٹی رہ جاتیں ۔زبیر اسے دیکھتے ہی دنگ رہ جاتا ۔دونوں کی آنکھیں جب چار ہوتیں توعشق کی قدرت اپنی وحی ان پر نازل کردیتی۔ یہ ایک بغاوت کی ابتداءتھی جہاں حویلی کے اندر سے حویلی کی شان میں چھید ہونے جارہاتھا ۔ایک طرف سمو اپنی شان وشوکت کو خاطر میں لاکر نظریں ہٹا دیتی تو زبیر اپنی اوقات کا خیال کرتا ۔ جیسے جیسے یہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ویسے ویسے آنکھوں کا پیغام انہیں ستانے لگتا ۔سمو نے اپنی جگہ اور زبیر نے اپنی جگہ سماج کا بن کر سوچا لیکن ان کے درمیان جو اصول کام کرگیاتھا ان کے اندر سماج کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے کی طاقت پیدا کردی تھی ۔بالآخر ایک دن دونوں حویلی کے کونے میں قائم اصطبل میں ملے۔ آنکھیں چار ہوئیں ، دونوں ایک دوسرے کے پاس آنے لگے،سمو کب زبیر کی باہوں میں آگئی اسے پتہ نہ چل سکا۔دونوں نے ایک دوسرے کو سمیٹ لیایوں جیسے ایک جسم بننے جارہے ہوں۔محبت کی دیوی کی پوجا ہونے لگی تھی ۔پھولوں کی بارش ہونے لگی تھی ۔زمین آسمان کے درمیان لامتناہی فاصلے طے ہونے لگا تھا ۔

اب یہ پوجا روز ہونے لگی تھی ۔ حویلی کی نظریں گاﺅں کے ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد پر جمی ہوئی تھیں بلا خود حویلی کے اندر ایسا بے غیرتی کاکام کیسے چھپ سکتا تھا۔ ایک دن سمو اور زبیر باہوں میں بائیں ڈالے اصطبل کے کونے میں سرگوشی کررہے تھے کہ میر ولی داد کے بیٹے میرعبدل نے انہیں یوں دیکھ لیا ۔یہ ایک قابل اعتراض عمل تھا ۔ غیرت جاگ گئی۔ اشتعال سے میرعبدل کی آنکھوں سے انگارے پھوٹنے لگے تھے۔ کمر بند سے پستول نکال لیا۔ایک فائر دوفائر تین اورپھر چار فائر۔ دو محبت سے مغمور جوان جسموں سے گرم خون کے فوارے پھوٹ پڑے پورا حویلی امڈ آیا ۔گرم خون جسم کی رگوں سے نکل کر بہنے لگا ۔گاﺅں کے لوگ حویلی کے دروازے پر جمع ہوگئے ۔تھوڑی دیر میں ہی عقدہ کھلا کہ حویلی میں سیاہ کار ی ہوئی ہے اور اپنے انجام کو بھی پہنچی۔ بے غیرتی پر غیرت غالب آچکا تھا ۔گاﺅں کے لوگوں کیلئے زبیر کی موت سے زیادہ حویلی کی میر زادی سمو کی سیاہ کاری کی موت زیادہ دلچسپ اور حیران کن خبر تھی ۔

میر عبدل اس دہرے قتل کو چھپا سکتا تھا نہ بڑے میر‘میر ولی داد حویلی پر ایسا دھبہ دیکھ سکتا تھا ۔ وہ بھی قتل کرنے کے بعد ہقہ بقہ رہ گیا۔ حویلی کی میرزادی کی عام نوجوان سے سیاہ کاری پر حویلی ہل گئی تھی ۔ حویلی میں مٹی اڑنے لگی تھی ۔سیاہ کار اپنے آشنا کیساتھ مارا جاچکاتھا ۔گاﺅں والے میروں کا کام آسان کرنے لگے تھے کیونکہ دستور کے مطابق یہ عین درست عمل تھاکہ نہ غسل نہ کفن نہ قبر۔ ان سیاہ کاروں کا مزید سایہ غیرت کی دیواروں سے قائم حویلی کیلئے کسی طرح سے بھی نیک شگون نہیں تھا۔ میر ہکا بکا رہ گئے تھے۔ لوگوں نے دونوں لاشیں اٹھائیں ،نہ غسل نہ کفن نہ جنازہ نہ قبر۔ ایک ہجوم سے بن گیا۔ ہجوم میں ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو غیرت مندی کے احساس سے زیادہ سمو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہولئے تھے ۔میرولی داد اور میر بی برگسمیت میر خاندان کوکچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ اب کیاکریں ۔لوگ لاشیں اٹھانے لگے تھے ۔ یہ داستان کہ حویلی میں بھی سیاہ کاری ہوئی یہ حویلی اور میروں کے شان کے خلاف تھی ، میربی برگ کے ذہن میں خیالات کا مسلسل ایک بہاﺅ بہہ رہاتھا وہ اس عمل کو ہضم نہیں کررپارہا تھا ۔یہ صدمہ ان کیلئے ناقابل برداشت تھاتب آنا فانا ان کے ذہن میں آیاکہ ان کے والد(بلا میر) کو جب بھی کسی ایسے مسئلے میں مشکل پیش آتی تھی تو وہ مولوی سےمدد مانگتے تو وہ اس کا کوئی نہ کوئی مذہبی توجیح نکال لاتے تب کام چل جاتا۔ میر بی برگ بھاگتا ہوامولوی غفور کے گھر کی جانب جانے لگا ۔یہاں ہجوم بھی لاشیں اٹھا کر حویلی سے نکلاتھا کہ تھوڑی ہی دیر میں مولوی غفور کیساتھ ہجوم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا میر بی برگ اس کے پیچھے پیچھے تیز قدموں کیساتھ آیا ۔یہ دیکھ کر ہجوم رک گیا ۔مولوی غفور کے ہاتھ میں رومال میں لپٹی ایک کتاب تھی ۔اس کا چہرہ سرخ تھا اور بال کھلے ہوئے تھے وہ انتہائی جذباتی لگ رہا تھا ۔

مولوی نے فورا کتاب لوگوں کے سامنے رکھتے ہوئے ہوئے کہا
لوگوں تمہیں قسم ہے کہ اگر اس کتاب کو پھلانگ کر ایک قدم بھی آگے بڑھایا، یہ کتاب عظیم ہے یا ہمارے قبائلی روایات؟آج اگر تم لوگوں نے اپنی من مانی کی تو اللہ کے قہر سے تم لوگوں کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔پہلے اسے سیاہ کاری ثابت تو کرو پھر جو چاہے کرو۔ کیا کوئی اس قتل کو شریعت کے مطابق سیاہ کار ثابت کرسکتا ہے ؟
اے جاہلوں تمہیں پتہ ہے کہ شریعت میں سیاہ کاری کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہے ۔لوگ یہ سنتے ہی دھنگ رہ گئے ۔
مولوی کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ مزید پرجوش انداز میں کہنے لگا
جوجو اس قتل کو سیاہ کاری ثابت کرنا چاہتا ہے وہ گواہی دینے کیلئے سامنے آئے ۔
یہ سن کر لوگوں نے صورتحال بھانپ لی کہ ان سے کچھ غیر شرعی عمل ہواکہ مولوی آپے سے باہر ہوگئے ہیں ۔انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر لاشیں کندھوں سے اتار کر رکھ دیا اور پیچھے ہٹنے لگے
مولوی نے اپنی بات جاری رکھی
اللہ کے حکم سے روگردانی کرو گے تو تباہ ہوجاﺅ گے۔ہمارے ان فرسودہ قبائلی روایات نے آج تک ہمیں کیا دیا سوائے قتل وغارت گری کے ۔ قبائلی روایات جہالت کے سواکچھ نہیں ،یہ شریعت سے متصادم ہیں ۔ شریعت کی دوری کی وجہ سے ہم پرآفت نازل ہورہے ہیں ۔یہ قبائلی نظام اسلام سے پہلے کے دور جہالت کا دورہے ۔ خدارا فساد کا راستہ چھوڑو اور لوگوں کی زندگیوں سے یوں کھیلنا بند کردو ۔جس نے بھی ان کو قتل کیا ہے وہ چار گواہ لائے تب ان کو سیاہ کار ماناجائے گا ورنہ اس شہر کو اللہ کی قہر سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔

اللہ کے قہر کی باتیں اس شدومد سے سن کر لوگوں پر سکتا طاری ہوگیاتھا ۔کتاب کو پھلانگ کر بھلا کوئی کیسے آگے بڑھ سکتا تھالہذا لوگ مولوی کے اگلے شریعی حکم کے منتظر ہوگئے ۔

مولوی بھانپ گیا کہ اس کی باتیں اثر کر گئی ہیں
فیصلہ کرو کہ تباہی کا راستہ اپناﺅ گے یا شریعت کا ۔اگر کسی کو شریعت کی پرواہ نہیں تو لاشوں کو جاکر کھائی سے گرا کر آﺅ ورنہ لاشوں کو حویلی کی جانب واپس لے چلو ۔
اگر حویلی کے پہنچنے تک کسی کے پاس چار گواہ ہوں تو وہ سامنے آئے رونہ یہ بے گناہ ہیں ۔مولوی نے حکم سناد یا

لوگوں نے شریعت کی باتیں سن کر پھر سے لاشیں کندھوں پر اٹھائیں اور حویلی کی جانب جانے لگے

لوگوں نے لاشیں تو اٹھائیں لیکن انہیں کچھ عجیب سالگا ۔وہ مطمئن نہ ہوئے اورہجوم میں شامل لوگوں کی آپس میں کسر پسر شروع ہوگئی

آج پتہ چلا کہ سیاہ کاری کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ‘لالہ شیر خان نے اپنی تصحیح کرنا چاہی

تو پھر نبل کی جوان سال بیٹی کو مولوی کے گھر کے پاس سیاہ کارکیاگیا مولوی نے چار گواہوں کی بات کیوں نہیں کی؟ نوجوان شاکر نے اس کو دوٹوک جواب دیا

اور صالو کی بیوی کو سندھ سے آئے اس کے رشتہ دار کیساتھ سیاہ کار کرکے ماراگیا تو مولوی بھی موجودتھا اس وقت مولوی نے شریعت کی بات کیوں نہیں کی ؟نوجوان فاروق نے شاکر کی تصدیق کی

شیرو کی بہن کو ولو نے گزگ کے ایک شوہان کیساتھ سیاہ کار کیا،سب جانتے ہیں کہ اس نے ایسا رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے کیا ،مولوی نے وہاں جاکر خود اسے بغیر چار گواہواں کے سیاہ کارقراردیاتھا۔ سفر خان نے بھی ایسا ہی سوال داغ دیا

مولوی خود روز ہمارے قبائلی روایات کو شریعت کے عین مطابق قرار دیتے تھے اور آج ؟ ماما کلیم نے بھی مولوی کے فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کیا

ٓان باتوں کو سن کر ہجوم میں شامل مفلر سے منہ ڈھکے نسبتا دبلے پتلے شخص نے جملہ کسا

میروں کے چرب نوالوں نے آج کام کردکھایا۔

مولوی ہجوم کے سامنے حویلی کی جانب چلتے ہوئے زور زور سے کہہ رہا تھا کلمہ شہادت ۔۔۔۔۔ کلمہ شہادت ۔۔ کلمہ شہادت

( تمام کرداروں کے نام فرضی ہیں ۔ کہانی محض اظہاررائے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے )