بی این ایف کی جانب سے دشمن کی مظالم اور قومی حوصلہ کے عنوان سے پمفلٹ جاری

337

بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف ) کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان بھر میں بعنوان دشمن کی مظالم اورقومی حوصلہ پمفلٹ تقسیم کیا گیا،

دشمن کی مظالم اورقومی حوصلہ

ہم دنیاکے تمام آزادی کی تحریکوں کے بارے میں سنتے یاپڑھتے ہیں تو ہمیں آزادی کے تحریکوں میں حریت پسندوں کی لازوال قربانیاں اور دشمن کی بربریت ،درندگی اورحیوانیت کی داستانیں ہی نظرآتے ہیں لیکن آزادی پسند قومیں ہمیشہ دشمن کی تمام تر حیوانیت اور درندگی کا مقابلہ کرکے اپنی قومی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کے تجربات سے ایک بات روزروشن کی طرح کی عیاں ہے کہ کامیابی کاضمانت آزادی پسندپارٹی اورتنظیموں کی وقت و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کامیاب حکمت عملیوں کا تعین اور مستقل مزاجی ہے ،اگر ہم مادرِ وطن بلوچستان کی حالیہ تحریکِ آزادی کو دیکھیں توتحریک کے حالیہ دورانیے میں دشمن کے تمام تر ظلم و جبرکے باوجودتحریک میں استحکام اور بلوچ قوم کا تحریک سے دلی وابستگی پارٹی اور تنظیموں کے مرہون منت ہے جنہوں نے ماضی کے تجربات کے روشنی میں نئی حکمت عملیوں سے بلوچ کلاسیک جنگی روایات اورجدیدسیاسی حکمت عملیوں کاامتزاج سے دشمن کامقابلہ کرنے کی پالیسیوں کوپارٹی اورتنظیمی شکل میں روبہ عمل لایا۔

گزشتہ کئی عشروں سے قابض ریاست بلوچ سر زمین پر اپنے ناجائزقبضے اور غیر فطری رشتے کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے جن میں عسکری دہشت گردی ،مذہبی انتہاپسندی اورقومی غداروں کی سرپرستی اوراستعمال سرفہرست ہیں لیکن بلوچستان کی آزادی کے لئے برسرپیکاراتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ مشکل اورکھٹن حالات میں قابض کی تمام قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کی پالیسیوں کونا کام بنارہاہے ، بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کے کامیاب سیاسی عمل کی بدولت جہاں بلوچ جہدِ آزادی کا نہ صرف پیغام آج ہر کوچہ و گدان تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکا ہے بلکہ پورے قوم کے مددواعانت سے تحریک کو مستحکم بنیادوں پراستوارکرچکاہے اس لئے فوجی وعسکری طاقت کے ساتھ ساتھ جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے اوربلوچ قوم کو آزادی پسندوں سے بددل اور دوررکھنے کے لئے پاکستا ن نے شروع دن سے باجگزار پارٹیوں کومیدان میں اتارچکاہے لیکن آزادی پسند پارٹیوں کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی بدولت دشمن کو ہر بار شکست کاسامناکرناپڑا ہے اورآج تک دشمن باجگزار پارٹیوں کے استعمال کے باوجود پاکستانی نظریے کو بلوچ قوم کے دل و دماغ میں اتارنے میں ناکام ر ہے بلکہ بلوچ قوم کا پاکستان کے خلاف نفرت عروج پرہے،غلام اورقابض کے درمیا ن رشتہ اورتعلق میں موجودہ مقام ہی دشمن کی شکست اورحواس باختگی کااصل سبب ہے اس احساسِ شکست اورحواس باختگی کااظہارپاکستان اورپاکستانی فوج کی وحشیانہ کاروائیوں میں بتدریج اضافے سے عیاں ہوررہاہے ، ہزاروں کی تعدادمیں بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنا،ٹارچرسیلوں میں اذیت دینا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنا ، اجتماعی قبریں، بستیوں میں لوٹ مار اورنذرآتش کرناسمیت آزادی پسند رہنماؤں اورکارکنوں کے سروں کی قیمت رکھنا ہی اس امرکے وضاحت کے لئے کافی ہیں کہ پاکستا ن کویقین ہوچکاہے کہ آزادی کا فیصلہ بلوچ قوم کا اجتماعی ہے جس سے وہ کسی بھی قیمت پردست بردارنہیں ہوگا ۔

آج پاکستان کے تمام مظالم کے باوجود قومی وقار اور نظریہ آزادی سے لیس بلوچ آزادی پسند جماعتوں کے کارکنوں کا حوصلہ فلک بوس ہیں، قومی جذبے سے سرشار کاروانِ آزادی روز بہ روز اندرونِ بلوچستان اور بیرونی دنیامیں کامیابی کے منازل طے کررہی ہے دنیاکے مختلف ممالک میں بلوچ قومی آوازسنائی دے رہاہے ،آج دنیا ہماری قومی شناخت اورہم پر جاری پاکستان کے مظالم سے واقف ہورہاہے ،آزادی پسند جماعتیں مہذب ممالک میں سیاسی پروگراموں کاانعقادکرکے آگاہی پھیلارہے ہیں،قومی تحریک کے اندرون بلوچستان کامیابیوں سے اپنی موت کو یقینی دیکھ کرقابض ریاست سترہ سالوں سے جاری خونی آپریشنوں میں شدت لارہاہے ،نسل کشی کے عمل کو تیز کررہاہے ،استعماری عزائم کے تکمیل کے لئے چین کوبلوچستان میں مکمل دست رس دیاگیاہے مختلف علاقوں میں جاری آپریشنوں میں چینی جہاز اور کمانڈوباقاعدہ حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کے باوجود پاکستان قومی تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوچکاہے ،اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ پاکستان نے اپنے باجگزاراورقومی دشمن ڈاکٹرمالک اورسرفرازبگٹی سے بلوچ نسل کشی اور سوات طرزآپریشن کا اعلان کراتاہے ڈاکٹرمالک اورسرفرازسے اعلان کرانے کا مقصدعالمی دنیا کے ردعمل سے بچناہے تاکہ دنیاکو باورکرایاجاسکے کہ بلوچ کے ’’نمائند‘‘ہی ان کاروائیوں کا’’فیصلہ‘‘کررہے ہیں، کٹھ پتلیوں سے صرف تنخواہ کے عوض ایسی بیانات دلایاجاتاہے اوریہ کرایہ کے لئے بلوچ نسل کشی میں معاونت میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سوات طرز آپریشن سے قطعی زیادہ شدت کے کاروائیاں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں۔سوات میں کوئی قومی تحریک نہیں تھا پاکستان کے اپنے پالے ہوئے گروہ تھے دنیاکے دباؤکو کم کرنے کے لئے ایک نام نہاد آپریشن کیاگیاسوات میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں عورتوں اور شیر خوار بچوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں سہنا پڑیں یا لوگوں کو اغواء کرکے اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا جبکہ بلوچستان میں ایک قومی تحریک کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی وجود کو نیست و نابود کرنے کے لئے ریاست کی غیرانسانی پالیسیوں کاشدت برقرارہے،حتیٰ کہ کوہستان مری، ڈیرہ بگٹی ، مکران سمیت اندرون پاکستان جہاں کہیں بلوچ نقل مکانی کرکے آباد ہوچکے ہیں انہیں ان تمام غیر انسانی رویوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔بلوچستان میں جاری مظالم کو سوات سے ہرگز تشبیہ نہیں دیاجاسکتا ہے بلکہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی درندگیوں کا دورانیہ بہت مختصرتھامگر اس کے باوجود بلوچستان اوربنگلہ دیش کے حالات میں کافی مماثلت پایاجاتاہے اگرپاکستان اورچند پیسوں کے عوض اس کے تلوے چاٹنے والے ڈاکٹر مالک اور سرفرازجیسے بے ضمیر بلوچستان میں بنگلہ دیش طرزکے درندگی کادھمکی دیتے تویہ سچ قرارپاتا کیونکہ جنس اور عمر میں تمیز کئے بغیربنگالیوں کا قتل عام اورحیوانیت کانشانہ بنایاگیا،جس طرح تمام درندگیوں کا مقابلہ کرکے ،تکالیف سہہ کر بنگلہ دیش آزاد ہوگیااسی طرح بلوچ قوم بھی پاکستانی فرعونیت کا مقابلہ کرکرکے اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔

بلوچ قوم آج اسی دور سے گزرہا ہے جس سے بنگالی، ویتنامی، الجزائری، کوریائی اور دیگر اقوام گزرچکے ہیں، جذبہ حب الوطنی سے سرشاریہ اقوام اپنی منزل اور مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ان اقوام کی مانند نظریے سے لیس آزادی پسندبلوچ قوم جس ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے دشمن کا مقابلہ کررہا ہے وہ یقیناً آزاد بلوچستان کی وجود کا سبب بنے گا۔مقصد کی حصول کے لیے آج بلوچ نیشنل فرنٹ جس جذبہِ حب الوطنی سے قومی آزادی کے پروگرام کو آگے لے جارہی ہے وہ یقیناًبلوچ قوم کے لیے خوشی کی نوید اور دشمن کے لیے اذیت اور تباہی کا پیش ثابت خیمہ ہوگا۔

ہم دنیاپر واضح کرتے ہیں کہ تاریخ بنگال کو آج ایک بار پھر بلوچستان میں دہرائی جارہی ہے ،آج عالمی دنیا میں جدید ریاستیں ، جدید سوچ کے حامل انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اور مہذب اقوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں پاکستان جیسی غیر فطری اور غیر مہذب ریاست کو لگام دیں تاکہ اس دور جدید میں عالم انسان اور انسانیت کوتباہی سے بچانا ممکن ہو اگر ان جیسی سوچ کے حامل ریاستوں کا وجود برقرار رہا تو ممکن ہے کہ بہت جلد پورا عالم اس آگ کی لپیٹ میں آجائے۔