بلوچستان: میڈیا بائیکاٹ کو دو ہفتے مکمل ہوگئے : دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

372

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بلوچستان میں پرنٹ میڈیا پر پابندی کو دو ہفتے مکمل ہوگئے،اخبار مالکان اور حکومتی رویے میں  کوئی تبدیلی نا آسکی۔

بلوچستان میں آزادی پسند سیاسی و مسلح تنظیموں کی جانب سے میڈیا پر ریاستی کنٹرول اور اظہار رائے کی آزادانہ بندش کے خلاف احتجاج کو دو ہفتے گزر گئے ہیں 25 اکتوبر سے بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اخبارات کی ترسیل مکمل بند ہے۔
اس بندش کے باوجود اخباری مالکان اور حکومتی رویے میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے معمولی تبدیلی تک نظر نہیں آرہی ہے۔

اخبار مالکان میڈیا کی آزادی اور بلوچستان میں حالات کی صحیح منظر کشی کے بجائے ریاستی فوج کے ساتھ مل کر بلوچستان میں فوجی آپریشن، اغواء، تشدد ذدہ لاشوں کی برامدگی سمیت اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں اور ریاستی بیانیہ پر کارفرما رہ کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف منفی پروپگنڈہ میں مصروف ہیں۔

چادر چھِین کر سر پر سجانے والے

بلوچ مسلح اور سیاسی تنظیموں کی میڈیا کے جانبدارانہ اور فوجی کنٹرولڈ رویے کو بھرپور عوامی تائید و حمایت حاصل ہے عام بلوچ عوام بلوچستان میں ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی موجودگی تک بائیکاٹ کے عمل کی حمایت کررہے ہیں کیوںکہ عوام کے خیال میں جب تک میڈیا پر ریاستی کنٹرول عائد ہوگا یا میڈیا مالکان اشتہارات کی لالچ میں حکومتی اداروں کے تلوے چھاٹ کر حقائق کے بجائے منفی کردار ادا کرنے کی حامی بھرینگے بلوچستان کے اصل مسائل اور عوامی حقوق پس پشت رہ جائینگے۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں میڈیا کی آزادی کے لیئے شروع کی گئی سخت گیر احتجاج کے پیچھے تلخیوں اور میڈیا مالکان کی کور چشم کی ایک طویل داستان ہے۔ حتی کہ گذ شتہ ہفتے کوئٹہ سے آزادی پسند رہنما اللہ نظر کی اہلیہ اور معصوم بچوں کے ساتھ اغواء شدہ استاد اسلم کی ہمشیرہ بمعہ بچے اور رشتہ دار نا کسی اخبار نے رپورٹ کی نا ہی کسی نیوز چینل نے اسے خبر کے طور پر لیا لیکن اغواء شدہ خواتین کی تذلیل کرکے انہیں بازیاب کیا گیا تب ریاستی حکم پر میڈیا متحرک ہوگئی لیکن کسی اخبار یا نیوز چینل یہ سوال اٹھانے کی ہمت نہیں کی کہ خواتین اور معصوم بچے جب مجرم ہی نہیں تھے تو انہیں چار دن غائب رکھ کر کس قانون اور آئین کےتحت ذہنی تشدد کا شکار کیا گیا۔

اسی طرح کراچی سے بی ایچ آر او کے رہنما نواز عطاء اور بچوں کو اغواء کرنے اور اس کے رد عمل میں کئی دنوں سے کراچی پریس کلب کے بغل میں قائم بھوک ہڑتالی کیمپ بھی میڈیا کی اندھی آنکھ سے اوجھل ہے۔

بلوچستان میں میڈیا کی چشم پوشی کے نتیجے میں پیدا ہوئے المیہ جو ریاستی بربریت کی بدتریں شکل میں نمودار ہوا ہے کا راستہ روکنے کا یہ واحد طریقہ ہے جسے مسلح اور آزادی پسند سیاسی قوتوں نے اختیار کیا ہے البتہ احتجاجی عمل کو مکمل کامیاب بنانے کے لیئے یہ اشد ضروری ہے کہ بے لگام الیکٹرانک میڈیا جس کا کردار پرنٹ میڈیا سے بدتر اور منفی رہاہے پر پابندی کا اطلاق کا جائے کیوں کہ اکثر علاقوں میں کیبل مالکان پاکستانی نیوز چینلز چلا رہے ہیں جو احتجاجی عمل کو سبوتاژ کرنے کا باعث ہے۔