File Photo

ہرنائی کےعلاقوں میں کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے بلوچ مزدوروں پر ایف سی کی جانب سے پابندی عائد کردی گئی۔

اگست کے وسط سے ایف سی نے ہرنائی ضلع کے مختلف علاقوں میں بلوچ آبادیوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے، ان آپریشنوں میں اب تک 7 مرد اور 5 خواتین فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں جبکہ دیگر کئی مرد و زن اب بھی انکی حراست میں ہیں۔ فوج کے اس باقائدہ کریک ڈاون کا مقصد اب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اس پورے علاقے سے بلوچ آبادی کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔

چودہ اگست کے روز ایف سی پر حملے کو جواز بنا کر پہلے قریب کے علاقوں میں صرف بلوچ آبادی پر دھاوہ بولا گیا اور انھیں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، جب یہی آبادی شاہرگ کے علاقے نشپا پہنچے تو ان پر جنگی ہیلی کاپٹروں سے حملہ کیا گیا اور بے دریغ آتش و آہن کا استعمال کرکے شیر خوار بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔

ہرنائی کے بلوچ آبادی کو پہلے قوت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور اب انکے معاشی قتل کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ کے نامہ نگار کو موصول ہونے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ ایف سی نے ہرنائی، کھوسٹ اور شاہرگ کے کوئلہ لیز مالکان کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے کانوں پر کسی بھی بلوچ مزدور کو کام کرنے نا دیں۔

ہرنائی کوئٹہ کے شمال مشرق میں 160 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس ضلع میں ہرنائی، کھوسٹ اور شاہرگ کے علاقے شامل ہیں۔ بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں 29 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور سالانہ کم از کم 188،389 ٹن کوئلہ یہاں سے نکالا جاتا ہے۔ اور اس وقت ضلع ہرنائی میں کان کنی کے لیئے 6, 551.46 ایکڑ زمین لیز پر لیا گیا ہے۔

دو ہزار چودہ میں ایف سی نے سیکورٹی کا بہانہ بنا کر ٹھیکداروں کے ساتھ اندر ہی اندر ایک سیکورٹی معاہدہ کرلیا تھا کہ سیکورٹی کے بدلے ایف سی فی ٹن 220 روپے لے گی۔ اس مد میں ایف سی اب تک کروڑوں روپے کما چکا ہے۔ خیال رہے اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں کیونکہ یہ معاہدہ بلوچستان حکومت اور علاقہ کے حقیقی مکینوں کے مرضی کے بغیر طے کی گئی تھی۔

معاہدے کے تحت ایف سی کے کم از کم 700 اہلکار اس وقت کوئلہ لیجانے والی ٹرکوں اور مائنز کی سیکورٹی پر معمور ہیں۔ ایف سی اپنے کروڑوں کی اس آمدنی کو عوام پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرتی آرہی ہے اور ہر بار میڈیا نمائندوں کو ایف سی کیمپ میں بنے اسکول اور اپنے پروگراموں کے لیئے بنائے گئے بڑے حال دکھاتی ہے، جبکہ ایف سی کی جانب سے عوام کے ساتھ نہایت سخت رویا اپنایا جاتا ہے اور پشتونخوامیپ کے بیان کے مطابق ایف سی اہلکار ہر دو میل بعد لوگوں کی چیکنگ کرکے تذلیل کرتے ہیں۔

اسی طرز کا ایک معاہدہ ایف سی نے دکی کے کوئلہ کان مالکان کے ساتھ بھی کر رکھا ہے، جہاں معاہدے کے مطابق 571 اہلکار کوئلے کے ٹرکوں اور مائنز کی حفاظت پر معمور ہیں اور بدلے میں ایف سی سالانہ کروڑوں کما رہی ہے۔ ایف سی بلوچستان میں حکومتی فورس کے بجائے ایک پرائیویٹ فورس کی شکل اختیار کرچکا ہے جو پیسا بٹورنے کے لیئے اپنی مرضی سے کہیں بھی کوئی بھی معاہدہ کرلیتا ہے۔ ایف سی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ حالات کو خود خراب کرنے میں ملوث ہے تا کہ ان علاقوں میں کان مالکان مجبور ہوکر ان سے معاہدے طے کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے ہرنائی میں پشتون قوم پرست جماعت کے رکن اور لیز مالکان میں سے ایک کے نمائندے نے بات کرتے ہوئے کہا کہ، “ہم بارہا کہتے آرہے ہیں کہ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ایف سی کول مائنز سے بندوق کی نوک پر جبری ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ اس لائن پر کام کرنے والے گاڑیوں سے بھی بھتہ لے رہا ہے جسکی وجہ سے غریب ڈرائیوروں کی کمائی رک گئی ہے”۔ تازہ اطلاعت کے مطابق 14 اگست کے بعد سے ایف سی نے اپنے مطالبات منوانے کے لیئے تمام مائنز پر کام روک دیا ہے، کان بند ہونے کی وجہ سے مزدور فاقہ کشی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

ایف سی کی اس غنڈہ گردی اور اپنے کروڑوں کی غیر قانونی آمدنی کو مستقل بنانے کے لیئے ایف سی اب ان علاقوں میں بلوچ آبادی کو اپنے لیئے خطرہ محسوس کر رہی ہے اور انھیں فوجی قوت کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی قتل کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں ایف سی نے تمام مائنز پر کام روک دیا ہے اور تب تک بند رکھنے کا کہا ہے جب تک مالکان تمام بلوچ مزدوروں کو بے دخل نہیں کردیتے۔