انتظار کے چودہ طویل سال
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی انسان کیلئے انتظار کرنا بہت ہی کٹھن کام ہوتا ہے، پھر چاہے آپ کسی شخص کا انتظار کررہے ہوں، کسی قطار میں کھڑے اپنے باری کا انتظار، ہوٹل کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے کھانے کا انتظار، اس تمام دورانیے میں ایک بےچینی دل میں پیدا ہونے لگتی اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دو لمحوں کا انتظار پَل بھر میں ختم ہوجائے۔
سوچیے جب آپ ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کی انتظار کے بعد کسی چیز کے انتظار میں اس قدر بے چین ہوسکتے ہیں کہ آپ اُس چیز کو حاصل کرنے کی خاطر کبھی کمپنی کو فون، تو کبھی ایمیل یا اگر ممکن ہو تو کمپنی کے دفتر جاکر یا پھر انکے سوشل میڈیا پر اپنا فرسٹریشن نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ کے انتظار کا وقت ختم ہوجائے اور آپ اپنی زندگی کو اس انتظار سے آگے بڑھاسکیں۔
اب سوچیے آپ کا کوئی پیارہ، آپ کا باپ، بھائی، بیٹا یا شوہر، جبری طور پر لاپتہ کردیا جائے، اور آپ کی زندگی کو ایک انتظار کے سائیکل میں لاکر کھڑا کردیا جائے پھر آپ کیا کرینگے ؟ آپ کیسے والد کے سائے کے بغیر زندگی کی گاڑی کو چلائینگے ؟
آپ کیسے بھائی کی یادوں کو پست پُشت ڈال کر ایک خوشنود زندگی گزارینگے ؟ آپ کیسے ایک بیٹے کی محبت کو فراموش کر سکینگے ؟ آپ کیسے اپنے شوہر کے زندہ ہونے کے باوجود بیواؤں کی طرح زندہ رہینگے؟
آج بلوچستان بھی ایک ایسی بے چینی صورتحال سے دوچار ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ بزرگ، نوجوان، سیاسی کارکنان، طلبہ، ڈاکٹر، وکیل، چرواہا، ماہیگیر، مزدور، صحافی اور زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی فوج، پیرا ملٹری فورسز ایف سی، آئی ایس آئی، ایم آئی، سی ٹی ڈی اور دیگر ریاستی اداروں نے انکے گھروں سے، دفتروں سے، ہسپتالوں سے، پریس کلبوں سے، اسکولوں سے، کالجوں سے، یونی ورسٹیز سے دوران سفر پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹس سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنادیا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی فہرست ہزاروں کی تعداد میں ہے جس میں اکثریت ان افراد کی ہے جنہوں نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے بنیادی بلوچ قومی سوال (بلوچستان کی آزادی) کی بحالی کی خاطر جدوجہد کا آغاز کیا یا اسکا حصہ بنے۔
جبری طور پر لاپتہ افراد میں ایک کثیر تعداد بی این ایم کے رہنماوں اور کارکنان کی بھی ہے، جن میں گزشتہ چودہ سالوں سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد پیشے سے ایک ڈاکٹر ہیں، جنکا کام لوگوں کی جان بچانا اور یہ یقینی بنا تھا کہ لوگ صحتمند اور تندرست رہیں اور تمام قسم سے جراثیم اور بیماریوں سے دور رہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور قومی امراض کا علاج بھی کرنا چاہتے تھے۔ اور اسی نظریہ اور سوچ کو لئے وہ بلوچ قومی جدوجہد سے منسلک سیاسی پارٹی بی این ایم کے کاروان کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ جب انہیں لاپتہ کیا گیا وہ اس وقت بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر تھے اور جبری گمشدگی کے وقت ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔
ڈاکٹر دین محمد جنہیں اٹھائیس جون دو ہزار نو کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناگیا تھا، تب سے لیکر آج تک انکی بیٹیاں سمی دین اور مہلب دین اپنے بابا کی آزادی اور بازیابی کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔
سمی دین اپنے بابا کی بازیابی کی امید لئے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک ایک انتہائی کٹھن لانگ مارچ کا حصہ تھیں۔ سمی اور مہلب دین گزشتہ چودہ سالوں سے کبھی کراچی تو کبھی کوئٹہ اور کبھی اسلام آباد کے پریس کلبز کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں اور اپنے بابا کا انتظار کرتی ہیں۔ سمی اور مہلب دین کا بچپن احتجاجوں، ریلیوں، سیمینار اور پریس کانفرنس میں گزر گیا لیکن ڈاکٹر دین محمد کے بارے کوئی خبر نہیں آسکی۔
انتظار کے اَن چودہ سالوں میں سمی اور مہلب نے کبھی بھی ہار نہیں مانی اور نہ ہی اپنے بابا کی آزادی کیلئے کی جانے والی جدوجہد میں کوئی سستی دکھائی، سمی اور مہلب آج بھی اپنے بابا کی بازیابی سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کی آواز بن کر عید قرباں کے موقعہ پر جہاں دنیا اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر قربانی کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، اپنے اہل و احباب کے ہمراہ عید کے تہوار سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تو وہیں سمی ءُ مہلب دین ہزاروں بلوچ فیملیز کے ہمراہ احتجاج کی تیاروں میں مصروف ہیں جس کامقصد اُنکے بابا سمیت تمام بلوچوں کی بازیابی ہے، جنہیں پاکستانی ریاست نے گزشتہ دو دہائیوں میں مخلتف اوقات میں بلوچستان سمیت، کراچی، اندرون سندھ، پنجاب اور بیرون ممالک سے لاپتہ کیا ہے۔ سمی اور مہلب آج اپنی قوم انسانی حقوق کے اداروں سیاسی اور سماجی تنظیموں اور میڈیا سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں انکی آواز بنکر انکی اس تلاش میں مدد کرتے ہوئے انتظار کے ان طویل سالوں کو ختم کرنے میں انکا ساتھ دینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں