ماہل بلوچ کی عدم بازیابی و بارکھان واقعے کے خلاف پنجگور میں احتجاج

230

ماہل بلوچ کی عدم بازیابی اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے خلاف پنجگور میں شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

اس موقع پر شرکاء نے ہاتھوں میں ماہل بلوچ اور بارکھان واقعہ میں قتل ہونے والے افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے- مظاہرین نے ماہل پر جھوٹے مقدمات کی اندراج اور بارکھان واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور اداروں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی-

احتجاج میں شہریوں کے ہمراہ طلباء تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان بڑی تعداد شریک ہوئیں-مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ماہل بلوچ کو فوری منظر عام پر لاکر رہا کیا جائے اور بلوچستان میں بلوچ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ انکے جبری گمشدہ افراد کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔

ماہل بلوچ کی ماورائے قانون گرفتاری اور بارکھان واقعہ کے خلاف مختلف طلباء و سیاسی تنظیموں کی جانب سے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی-

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ماہل بلوچ پر دائر مقدمات کو ختم کرکے انہیں فوری طور پر رہا کرے اور بلوچستان میں اجتماعی سزاء کے طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا عمل ترک کردیا جائے-

پنجگور مظاہرین کا کہنا تھا پہلے نور جان پھر حبیبہ پیر جان اور رشیدہ زہری کے بعد ماھل بلوچ ریاستی جبر کا شکار ہوئے بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا بلوچ تشویش ناک ہے۔ بلوچ خواتین کو سنگین ریاستی اجتماعی سزا کا سامنا ہے-

واضح رہے 17 اور 18 فروری کی شب 11 بجے کے قریب بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے ایک خاتون ماھل بلوچ کو ان کے بچوں سمیت گھر سے حراست میں لے کر جبری گمشدگی کا شکار بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا تھا-نعدازاں سی ٹی ڈی نے ماہل بلوچ کو خودکش بمبار ظاہر کرتے ہوئے انکی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا-

ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی و بعد ازاں مختلف کیسز میں گرفتاری ظاہر کرنے کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ماہل بلوچ کے لواحقین نے طلباء کے ہمراہ کوئٹہ ریڈ زون میں اجتجاجی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں-

ماہل بلوچ کی ماورائے قانون گرفتاری کے خلاف مختلف طلباء و سیاسی تنظیموں کی جانب سے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے – مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ماہل بلوچ پر دائر مقدمات کو ختم کرکے انہیں فوری طور پر رہا کرے اور بلوچستان میں اجتماعی سزاء کے طور پر خواتین کو نشانہ بنانے جا عمل ترک کردیا جائے