ہم نے کوئٹہ میں اپنے پچاس روزہ دھرنے کو وفاقی وزیر داخلہ و وزیر قانون کے یقین دہانی پر ختم کیا تھا کہ تین مہینے میں ہمارے مطالبات پر عمل درآمد ہوگی مگر مطالبات پر عمل درآمد کی بجائے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے کی ہے۔
وی بی ایم پی رہنماء نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کہا کہ کوئٹہ میں ہمارے دھرنے کو پچاس دن بعد اسلام آباد سے آئے ہوئے مزاکراتی کمیٹی جسکی سربراہی وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ اور وزیر قانون اعظم نذیر کررہے تھے اس یقین دہانی پرختم کرائی تھی کہ وہ اگلے تین مہینے کے اندر ہمارے پیاروں کومنظر عام پر لائیں گے اور مزید جبری گمشدگیوں کی روک تھام کریں گے۔
سمی دین نے کہا کہ مگر ہر بار کی طرح اس باربھی وہ مزاکراتی عمل وقت گزاری ثابت ہورہی ہے جسکا ہمیں بخوبی پہلے سے اندازہ تھا چونکہ ہم پرامن جدوجہد کے ماننے والے ہیں تو مزاکراتی عمل میں حصہ لے کر یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ ہم کسی کی بات نہیں سنتے مگر تین ماہ گزرنے کے بعد پہلے سے جبری گمشدگیوں کے شکار لاپتہ افراد کی بازیابی اپنی جگہ بلکہ مزید بلوچوں کو لاپتہ کرکے جبری گمشدگیوں کی فہرست میں اضافہ کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وعدہ خلافی ہمیشہ سے اس ریاست کے حکمرانوں کی فطرت میں رہی ہے مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کھوکھلے دعوؤں سے وہ بلوچستان میں اعتماد کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ کھوچکے ہیں۔
“ہم لواحقین کی تکلیف کا اندازہ لگانے کیلئے ابھی تک کوئی ایسا آلہ ایجاد ہی نہیں ہوا کہ کسی کی کرب و درد دن رات کی اذیت کو بھانپ یا ناپ سکے مگر اس تمام عمل میں اپنے پیاروں کی آس لگائے بیٹھے لواحقین نہ صرف اس ریاست سے، انکے جتنے ستون ہیں ان سے، بلکہ ریاستی مشینری سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔”
بلوچستان میں ہونے والے جبری گمشدگیوں میں تیزی اور جعلی مقابلوں پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکڑری سمی دین بلوچ (@SammiBaluch)کے خیالات
1/2 pic.twitter.com/ZomznQZMo9— The Balochistan Post (@BalochistanPost) November 2, 2022
سمی دین نے کہا کہ اس صورتحال میں نہ عدلیہ کا کوئی کردار نظر آیا نہ میڈیا کے کیمروں کے شٹر لواحقین کی طرف نظر آتے ہیں نہ پارلیمان کی جانب سے کوئی سنجیدگی نظر آتی ہے اور نتیجہ مایوسی کی صورت ابھر رہی ہے آئین قانون بنانے والے ہی اسکی پامالی میں شریک ہوں، تحریری معاہدات کو صرف کاغذ کا ٹکڑا سمجھا جائے تو وہاں ریاست اور عوام کے درمیان جو خلیج پیدا ہوتی ہے اس پر اسے نہ معافی مانگنے سے دور کیا جاسکتا ہے نہ نئے آئین و قوانین یا معاہدات سے دور کرسکتے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز رہنماء کا کہنا تھا کہ لواحقین کی تکلیف مایوسی وبیزاری کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا جو روزانہ ہم سے رابطہ کرکے اپنےپ یاروں کا پوچھتے ہیں اور ہمارے پاس بس پرامن رہنے کی تلقین ہوتی ہے۔